ایک مسلمان کیلئے ایسی فیکٹریوں میں کام کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے جن میں صرف شراب اور نشہ آور اسیاء تیار کی جاتی ہوں؟
شراب او ردیگر تمام نشہ آور اشیاء حرام ہیں‘ ان کیلئے فیکٹریاں بنانا اور ان میں کام کرنا بھی حرام ہے کیونکہ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ میں نی رسول اللہﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
’’میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور انہوں نے کہا: اے محمدﷺ! بلاشبہ اللہع زوجل نے شراب‘ اس کے نچوڑنے والے اور جس کیلئے نچوڑی گئی پینے والے‘ اٹھانے والے‘ جس کی طرف اٹھائی گئی ہو‘ اس کے بیچنے والے‘ خریدنے والے‘ پلانے والے اور اس کے پینے والے (سب) پرلعنت فرمائی ہے‘‘۔
لہٰذا اس شخص کیلئے اس حدیث کے پیش نظر شراب کی فیکٹریوں میں کام کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شراب کی فیکٹری میں کام کرنے والا بھی ملعون ہے اور پھر اس لیے بھی کہ یہ گناہ اور ظلم کی باتوں میں تعاون ہے اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو‘‘۔
حکم شریعت سے ناواقفیت کی وجہ سے اس نے اس فیکٹری میں پہلے جو کام کیا وہ معاف ہے‘ جیسا کہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ:
’’اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں‘ عذاب نہیں دیا کرتے‘‘۔
کے عموم سے معلوم ہوتا ہے۔ رسول پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوتی اور وہ اسے امت تک پہنچا دیتا ہے اور بندہ اسی وقت مکلف ہوتا ہے جب اس کے پاس اللہ کا حکم پہنچ جائے۔
کونسل برائے کبار علماء نے اپنے انتیسویں اجلاس میں‘ جو ریاض میں ۷۰۴۱ھ میں ۹ سے ۰۲ جمادی الثانی تک منعقد ہوا‘ خادم الحرمین شریفین ملک فہد بن عبدالعزیز حفظ اللہ کے ٹیلی گرام نمبر س۔ ۳۳۰۸ مورخہ ۱۱ جمادی الثانی ۷۰۴۱ھ پر غور کیا جس میں لکھا ہوا تھا کہ ’’منشیات کے چونکہ بے حد خطرناک نتائج ہیں اور ہم نے محسوس کیا ہے کہ ان آخری ایام میں یہ بہت کثرت سے پھیلتی جا رہی ہیں‘ لہٰذا مصلحت عامہ کا تقاضا یہ ہے کہ معاشرے میں منشیات پھیلانے والے لوگوں کو سخت سزا دی جائے خواہ وہ ان کی سمگلنگ کریں یا ان کو رائج کریں‘ لہٰذا ہماری خواہش ہے کہ اس مسئلہ کو جلد کونسل کبار علماء میں پیش کیا جائے اور کونسل اس مسئلہ سے متعلق اپنی سفارش پیش کرے‘‘۔
کونسل نے اپنے ایک سے زیادہ اجلاسوں میں اس موضوع پر غور کر کے اس کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیا‘ مناقشہ‘ تبادلۂ افکار و آراء سے اس خبیث اور مہلک وبا کے پھیلنے کے نتائج پر غور کیا جو اس کی سمگلنگ‘ تجارت‘ ترویج اور استعمال کی صورت میں برآمد ہو رہے ہیں۔ منشیات استعمال کرنے والے انسانوں پر ان کے انتہائی بدترین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ان کے استعمال کے نتیجہ میں بدترین جرائم‘ گاڑیوں کے حادثات اور طرح طرح کے اوہام و خرافات میں اضافہ ہو رہا ہی بلکہ مجرموں کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آ رہا ہے جس کی گھٹی میں ظلم اور جس کی طبیعت ہی میں بدخلقی اور بداخلاقی اور قاہل احترام چیزوں کی بے حرمتی رچی بسی ہوئی ہوتی ہے جو ہر قسم کے قانون کی خلاف ورزی کر کے انتشار و خلفشار پیدا کر رہا ہے کیونکہ منشیات استعمال کرنے والوں میں غرور و تکبر اور ہیجان کی ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ ہر چیز پر قادر ہیں۔ نیز ان میں ایسے اوہام و افکار پیدا ہوتے ہیں جو انہیں ارتکاب جرائم پر مجبور کرتے ہیں منشیات کا اسعتمال صحت عامہ کیلئے بھی نقصان دہ ہے اور اس سے عقل میں خلل پیدا ہو کر جنون تک نوبت پہنچ سکتی ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان تمام خرابیوں اور بیماریوں سے ہمیں عافیت و سلامتی میں رکھے‘ چنانچہ منشیات کے تمام پہلوئوں پر غور کرنے کے بعد کونسل نے بلا جماع یہ طے کیا ہے:
اولاً: منشیات کے سمگلر کی سزا قتل ہے کیونکہ منشیات اسمگل کر کے یہاں لانے اور اسے پھیلا دینے میں فساد عظیم ہے جو صرف اسمگلر کی ذات کی حد تک نہیں بلکہ اس کے زبردست نقصانات اور بے حد خوفناک خطرات سے ساری امت متاثر ہوتی ہے۔ جو شخص منشیات کی درآمد کرے اس کیلئے بھی وہی سزا ہوگی جو اسمگلر کی ہوگی یا جو شخص بھی انہیں باہر سے حاصل کرکے استعمال کرنے والوں کیلئے اپنے پاسجمع کر کے رکھے گا‘ اس کی بھی یہی سزا ہوگی۔
ثانیاً: منشیات کو رائج کرنے والے کے بارے میں جوقرارداد نمبر ۵۸ مورخہ ۱۱ ذوالقعدۃ ۱۰۴۱ھ کو پاس ہوئی تھی‘ وہ کافی ہے اور اس کا متن حسب ذیل ہے:
دوم: جو ان کو رائج کرے خواہ خود تیار کرے‘ یا درآمد کرے‘ خریدوفروخت کرے یا کسی کو تحفہ دے‘ یا کسی بھی اور طریقے سے انہیں پھیلائے اور اگر وہ پہلی مرتبہ اس جرم کا ارتکاب کرے تو اسے قید یا کوڑوں یا مالی جرمانے کی سزا ہوگی یا اگر عدالت سمجھے تو بیک وقت یہ سب سزائیں دی جائیں گی اور اگر وہ اس جرم کا بار بار ارتکاب کرے تو پھر اسے ایسی عبرتناک سزا دی جائے‘ جس سے معاشرہ اس کے شر سے پاک ہو جائے خواہ یہ سزا قتل کی صورت میں ہو کیونکہ اپنے اس فعل کی وجہ سے وہ ’’مفسدین فی الارض‘‘ زمین میں فساد مچانے والے ڈاکوئوں میں شمار ہوتا ہے اور ان میں سے جو لوگوں کے دلوں میں جرائم کے بیج بوتے ہیں۔ محققین اہل علم نے قتل کو بھی تعزیری سزا ہی کی ایک صورت قرار دیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
’’زمین سے جس کا فساد قتل کے بغیر دور نہ ہوتا ہو توا سے قتل کیا جائے‘ مثلاً جس طرح وہ شخص ہے جو مسلمانوں کی جماعت میں تفریق پیدا کرنے والا اور دین میں بدعات کا داعی ہو‘‘۔
جیسے کہ نبیﷺ نے اس شخص کے قتل کا حکم دے دیا تھا جس نے جان بوجھ کر (عمداً) آپ کی طرف ایک جھوٹی بات منسوب کی تھی اور ابن الدیلمی نے جب آپ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا‘ جو شراب نوشی سے باز نہ آئے تو آپﷺ نے فرمایا: ’’جو اس سے باز نہ آئے اسے قتل کر دو‘‘۔
ابن تیمیہؒ ایک دوسری جگہ تعزیری سزا کے طور پر قتل کی علت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مفسد حملہ کرنے والے کی طرح ہوتا ہے اور اگر حملہ آور کو قتل کے بغیر روکنا ممکن نہ ہو تواسے قتل کیا جائے گا‘‘۔
ثالثاً: کونسل کی رائے یہ ہے کہ فقرہ نمبر۱ اور نمبر۲ میں مذکور سزائیں دینے سے قبل یہ بھی ضروری ہے کہ شرعی عدالتوں اور سپریم کورٹ میں ضروری شہادتوں وغیرہ کی روشنی میں جرم ثابت ہو چکا ہو تاکہ ذمہ داری پوری ہو سکے اور انسانی جانوں کے بارے میں احتیاط سے کام لیا جائے۔
رابعاً: یہ بھی از بس ضروری ہے کہ ان سزائوں کے نفاذ سے پہلے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ان کا اعلان کر دیا جائے تاکہ کوئی ناواقفیت کا عذر پیش نہ کر سکے اور لوگوں کو ڈرایا بھی جا سکے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب