سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(451) نشہ باز زانی پر حد قائم کی جائے گی

  • 9929
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1264

سوال

(451) نشہ باز زانی پر حد قائم کی جائے گی
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نے نشہ کی حالت میں اپنی بیوی کی بہن سے بدکاری کی‘ اس کی شرعی سزا کیا ہے؟ کیا اس لڑکی کا اس پر کوئی حق ہے؟ میں نے اس لڑکی سے شادی کی ہے‘ مجھے کیا کرنا چاہئے اس لڑکی (میری بیوی) نے اس واقعہ کے تین ماہ بعد مجھے بتایا ہے اور مجھے معلوم ہے کہ یہ خود بے گناہ ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس شخص کی جس نے اپنی سالی سے نشہ کی حالت میں بدکاری کی‘ سزا یہ ہے کہ اس پر بھی وہی ہد قائم کی جائے جو صحیہ سالم زانی کی حد ہے۔ امام احمدؒ کے مذہب میں مشہور قول یہی ہے۔ اگر اس شخص نے اس کی بیوی کے ساتھ بدکاری کی جب کہ یہ خود شادی شدہ تھا اور یہ دونوں بالغ‘ عاقل اور آزاد تھے تو پھر واجب ہے کہ اسے پتھر مار مار کر مار دیا جائے کیونکہ شادی شدہ زانی کی یہی سزا ہے جیسا کہ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہؓ اور زید بن خالد جہنیؓ کی روایت میں اس مزدور کے قصہ میں مذکور ہے جس نے اس شخص کی بیوی سے زنا کر لیا تھا جس نے اسے مزدوری پر رکھا تھا تو نبی اکرمﷺ نے حکم دیا تھا کہ اس عورت کو بھی سنگسار کر دیا جائے۔ نیز صحیحین ہی میں حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ آپ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا:

«وَالرَّجْمُ فِي كِتَابِ اللَّهِ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى إِذَا أُحْصِنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، إِذَا قَامَتِ البَيِّنَةُ، أَوْ كَانَ الحَبَلُ أَوِ الِاعْتِرَافُ »( صحيح بخاري)

’’رحم حق ہے‘ کتاب اللہ میں اس کا ذکر ہے اور یہ ان مردوں اور عورتوں کی سزا ہے جو شادی شدہ ہو کر زنا کریں بشرطیکہ گواہی‘ حمل یا اعتراف سے جرم زنا ثابت ہو جائے‘‘۔

جس لڑکی سے بدکاری کی گئی ہے‘ اس کا حق حاکم شرعی کی صوابدید کے مطابق اسے دلایا جائے گا۔

یہ شخص جس نے اس لڑکی سے شادی کی او رپھر تین ماہ کے بعد اس واقعہ کے بارے میں اسے بتایا ہے اور وہ جانتا ہے کہ یہ عورت بے گناہ ہے‘ اگر یہ اپنی بیوی میں نیکی اور استقامت دیکھے تو اسے اپنے پاس رکھے اور اس سے جو زبردستی بدکاری کی گئی‘ یہ اس کیلئے نقصان دہ نہیں ہوگی کیونکہ یہ اس کے اختیار کے بغیر کی گئی ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص407

محدث فتویٰ

تبصرے