اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو کیا اسے قتل کیا جائیگا ‘ ہم نے بعض فقہا سے یہ سنا ہے کہ اگر آپ اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو اسے قتل نہیں کیا جائیگا بلکہ اس پر دیت واجب ہو گی؟
جمہور اہل علم کی یہی رائے کہ والد کو اپنے بیٹے کے قتل کے بدلے قتل نہ کیا جائے خواہ اس نے اسے عمداً قتل کیا ہو ‘ ان کا استدلال سے بھی ہے اور تعلیل سے بھی۔ دلیل تو یہ مشہور حدیث ہے:
‘’ اپنے بیٹے کو قتل کرنے کی وجہ سے باپ کو قتل نہ کیا جائے‘‘۔
اور تعلیل یہ ہے کہ والد بیٹے کے وجود کا سبب ہے ‘ لہٰذا بیٹے کو اپنے باپ کے عدم کا سبب نہیں بننا چاہیے مگر بع اہل علم کی یہ رائے بھی ہے کہ اس وقت باپ کو بیٹے کے قتل کی وجہ سے قتل کیا جائیگا جب یقینی طور پر یہ معلوم ہو کہ باپ نے اسے عمداً قتل کیا ہے او رانہوں نے ان دلائل کے عموم سے استد لال کیا ہے جو قتل کی وجہ سے وجوب قصاص پر دلالت کناں ہیں ‘ مثلاً ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘’ مومنو! تم کو مقتولوں کے بارے میں قصاص یعنی خون کے بدلے خون کا حکم دیا جاتا ہے اس طور پر کہ آزاد کے بدلے آزاد مارا جائے اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت‘‘۔
نیز فرمایا:
‘’ اور ہم نے ان لوگوں کیلئے تو رات میں حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ‘‘۔
اور نبی ؐ نے فرمایا:
‘’ کسی بھی ایسے مسلمان کا خون بہانا جائز نہیں ہے جو اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور بے شک میں اللہ کا رسول ہوں ‘ الایہ کہ اس نے تین میں سے کسی ایک جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ -1 کسی انسان کو قتل کیا ہو ‘ -2 شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو ۔ -3 دین سے مرتد ہو کر مسلمانوں کی جماعت کو ترک کر دیا ہو ‘‘۔
نیز نبی ؐ نے یہ بھی فرمایا ہے:
تمام مومنوں کا خون برابر ہے اور وہ غیر مسلموں کے مقابل ایک قوت ہیں اور ان میں ادنیٰ درجے کا مسلمان بھی ان کے ذمہ کا اہتمام کریگا‘‘۔
ان علماء کا ان عمومات کی وجہ سے یہ کہنا ہے کہ والد کو بھی بیٹے کے قتل کی وجہ سے قتل کیا جائیگا جبکہ یہ معلوم ہوا کہ باپ نے عمداً اپنے بیٹے کو قتل کیا ہے اور جو یہ مشہور حدیث ہے‘‘۔
‘’ والد کو بیٹے کی وجہ سے قتل نہ کیا جائے‘‘۔
تو یہ حدیث ضعیف ہے۔ باقی رہی تعلیل تو وہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ والد کے قتل کا سبب بیٹا نہیں بلکہ خود والد ہی ہے کیونکہ جرم کا ارتکاب خود اس نے ہی کیا ہے اور اس نے ہی ایک ایسے بے گناہ کو قتل کیا ہے جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس دلیل کو الٹ کر ہم اس طرح بھی بیان کر سکتے ہیں۔ کہ باپ کا اپنے بیٹے کو قتل کرنا سنگین قسم کی قطح رحمی اور بدترین قسم کا قتل ہے کہ کوئی بھی اپنے اپنے بیٹے کو قتل کرنے کی جراًت نہیں کر سکتا حتی کہ حیوانات بھی اپنے چھوٹے بچوں پر شفت کرتے ہوئے ان پر اپنا سم کھر تک نہیں رکھتے مباداکہ کہ ان بچوں کو تکلیف پہنچ جائے تو جس شخص نے قطع رحمی کی انتہا کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو قتل کیا ہے اسے کیسے معاف کیا جا سکتا ہے ؟ بہر حال اس قسم کے مسئلہ کو شرعی عدالت میں لے جایا جائے تا کہ حاکم اہل علم کے اقوال میں سے جو زیادہ قرین صواب ہے اس کے مطابق عمل کر سکے۔ ادلہ یا آرا کے تعارق کے وقت انسان کو اپنے رب کی طرح رجوع کرنا چاہئے اور صراط مستقیم کی ہدایت کیلئے یہ دعا کرنی چاہیے۔
‘’ اے جبرائیل و میکائل و اسرافیل کے رب ‘ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ‘ چھپی اور ظاہر باتوں کو جاننے والے ‘ تو اپنے بنوں میں فیصلہ فرمائیگا ‘ جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں ‘ حق میں جو اختلاف کیا گیا ہے ‘ اپنے حکم کے ساتھ مجھے بھی اس میں ہدایت عطا فرما ‘ بے شک تو جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت عطا فرما دیتا ہے‘‘۔
انسان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے کیونکہ گناہ انسان اور حق کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں ‘ بعض علماء نے یہ استد لال حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ سے بھی کیا ہے:
‘’ اے پیغمبر ‘ ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تا کہ آپ اللہ کی ہدایات کے مطابق فیصلہ کریں اور دیکھو دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا اور اللہ سے بخشش مانگنا ‘ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب