سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(427) کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا

  • 9905
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2141

سوال

(427) کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمَن يَقتُل مُؤمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ...﴿٩٣﴾... سورة النساء

‘’ جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر مار ڈالے اس کی سزا جہنم ہے ‘‘۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قتل مومن کا ذکر کیا ہے ‘ قتل مسلم کا ذکر نہیں کیا اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو قتل کر دے تو اس کی سزا بھی جہنم ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہاں کوئی کسی مسلمان کو قتل کرے تو اس کی سزا بھی جہنم ہے کیونکہ اگر مقتول کا باطن بھی اس کے ظاہر کے مطابق ہے تو وہ بھی مومن ہے اور اس کا قاتل بھی نص آیت کے مطابق اخروی و عید کا مستحق ہے اور اگر اس کا باطن اس کے ظاہر کیخلاف ہے تو ہمیں اس کے ساتھ اس کے ظاہر کے مطابق ہی معاملہ کرنا چاہئے اور اس کے باطن کو نہیں کریدنا چاہیے ‘ لہٰذا اس کا خون بھی معصوم ہے اور یہ جائز نہیں کہ ہم اسے ناحق بہائیں ‘ کیونکہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا:

((أمرت أن أقاتل الناس ، حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله ، وأن محمدا رسول الله ، ويقيموا الصلاة ، ويؤتوا الزكاة ، فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحق الإسلام ، وحسابهم على الله تعالى)) (صحيح البخاري)

‘’ مجھے لوگوں سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے حتیٰ کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز ادا کرنے لگیں اور زکوٰۃ ادا رنے لگیں اور جب وہ یہ سب کچھ کر لیں گے تو مجھ سے اپنے خونوں اور مالوں کو بچا لیں گے ‘ ہاں البتہ اسلام کا جو حق ہو گا وہ تو ادا کرنا ہی پڑیگا اور پھر ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے‘‘۔

اس طرح حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ہمیں حرقہ ایک جگہ کی طرف بھیجا ‘ ہم صبح کے وقت ان لوگوں کے پاس گئے اور انہیں شکست دے دی ‘ میں اور ایک انصاری نے ان کے ایک شخص کا تعاقب کیا جب ہم اس پر غالب آ گئے تو اس نہ کہہ دیا ‘’ لا الہ الا اللہ ‘‘ یہ سن کر انصاری تو رک گیا مگر میں نے اسے نیزہ مار کر قتل کر دیا ‘ جب ہم واپس آ اور نبی ؐ کو یہ خبر معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا:

((‏ ‏يا ‏ ‏أسامة ‏ ‏أقتلته بعد ما قال لا إله إلا الله قال قلت يا رسول الله إنما كان متعوذا قال أقتلته بعد ما قال لا إله إلا الله قال فما زال يكررها علي حتى تمنيت أني لم أكن أسلمت قبل ذلك اليوم)) ( صحيح البخاري )

اسامہ! اس نے ‘’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کہا اور تم نے پھر بھی اسے قتل کر دیا ‘ میں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ اس نے پناہ لینے کیلئے کہا گا مگر نبی ؐ بار بار یہی ارشاد فرماتے رہے حتی کہ میں نے تمنا کی کہ اے کا ش! کہ میں آج کے دن سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا‘‘۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ؐ نے حضرت اسامہ ؓ کے اس گمان کو صحیح نہیں سمجھا کہ وہ مقتول ایمان کے اظہار میں سچا نہیں تھا ‘ یہی وجہ ہے کہ آپ نے حضرت اسامہ ؓ کی بات کی سختی سے تردید کی جس کا خحضرت اسامہ ؓ پر بھی بہت زیادہ اثر ہوا حتی کہ انہوں نے کہا کہ اے کاش ! کہ میں آج کے دن سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا ‘ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیا میں احکام ظاہری حالات کے مطابق ہوتے ہیں ‘ لہٰذا جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کر دے وہ گناہ گار ‘ کبیرہ گناہ کا مرتکب اور عذاب جہنم کا مستحق ہے ‘ الایہ کہ اس کا قتل ان تین مباح اسباب میں سے کسی ایک سبب کی وجہ سے ہو ‘ جن کا نبی اکرم ؐ نے اس حدیث میں ذکر فرمایا ہے:

((لا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث : الثيب الزاني ، والنفس بالنفس ، والتارك لدينه المفارق للجماعة)) (صحيح البخاري)

‘’ کسی مسلمان آدمی جو یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حق نہیں اور میں اس کا رسول ہوں کا خون حسب ذدیل تین امور میں سے کسی ایک کے بغیر حلال نہیں ہے۔ -1 جان کے بدلے جان کو قتل کر نا ‘ -2 شادی شدہ زانی کو قتل کر نا اور -3 دین کو ترک کرنے والے اور مسلمانوں کی جماعت سے علیحدگی اختار کرنے والے کو قتل کرنا‘‘۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص386

محدث فتویٰ

تبصرے