سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(404) نانی کا دودھ پینے کی وجہ سے ماموں کی بیٹی سے

  • 9881
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1957

سوال

(404) نانی کا دودھ پینے کی وجہ سے ماموں کی بیٹی سے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے اپنی نانی کا دودھ پیا ہے ‘ کیا میرے لئے اپنے ماموں کی بیٹی سے نکاح کرنا جائز ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس رضاعت سے حرمت حاصل ہوتی ہے وہ ہے جو پانچ یا اس سے زیادہ رضعات پر مشتمل ہو اور دو سال کی عمر کے اندر ہو اور ایک رضعہ یہ ہے کہ بچہ پستان کو منہ میں لیکر اس سے دودھ چوسے اور پھر اسے چھوڑ دے اور اگر وہ پھر پستان کو منہ میں لے لے اور اس سے دودھ پینا شروع کر دے تو یہ دوسرا رضعہ ہو گا لہٰذا اگر آپ نے اس طرح اپنی نانی کا پانچ یا اس سے زیادہ رضعات دودھ پیا ہے تو آپ اپنے ماموں کے رضائی بھائی بن گئے اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿حُرِّ‌مَت عَلَيكُم أُمَّهـٰتُكُم وَبَناتُكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم وَعَمّـٰتُكُم وَخـٰلـٰتُكُم وَبَناتُ الأَخِ وَبَناتُ الأُختِ...﴿٢٣﴾... سورة النساء

‘’ تم پر تمہاری مائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں حرام کر دی گئی ہیں ‘‘۔

اور فرمان باری تعالیٰ ہے:

﴿وَالو‌ٰلِد‌ٰتُ يُر‌ضِعنَ أَولـٰدَهُنَّ حَولَينِ كامِلَينِ ۖ لِمَن أَر‌ادَ أَن يُتِمَّ الرَّ‌ضاعَةَ...﴿٢٣٣﴾... سورة البقرة

‘’ اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ حکم اس کیلئے یہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے‘‘۔

اور نبی ؐ نے فرمایا ہے:

((إن الرضاعة تحرم ما تحرم الولاة )) ( صحيح البخاري )

‘’ رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہیں جو ولادت سے حرام ہیں‘‘۔

نیز حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے:

((كان فيما أنزل من القرآن عشر رضعات معلومات يحرمن ثم نسخن بخمس معلومات ، فتوفي رسول الله ﷺ وهي فيما يقرأ من القرآن)) ( صحيح مسلم)

‘’ قرآن مجید میں دل معلوم رضعات کے بارے میں حکم نازل ہوا تھا ‘ جن سے حرمت ثابت ہوتی تھی پھر ان کو پانچ معلوم رضعات کے ساتھ منسوخ کر دیا گیا اور رسول اللہ ؐ کی وفات کے وقت وہ قرآن میں پڑھی جاتی تھیں‘‘۔

اگر آپ نے اپنی نانی کا پانچ رضعات سے کم دودھ پیا ہے یا دو سال کی عمر کے بعد پیا ہے تو پھر آپ کیلئے اپنے ماموں کی بیٹی سے شادی کرنا جائز ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص370

محدث فتویٰ

تبصرے