ادارات بحوث علمیہ دافتاء و ارشاد کی رائستہ عامہ کو یہ سوال موصول ہوا ہے کہ حاجن مسعودہ کے ہاں عبدالرحمن نامی بیٹا پیدا ہونے کے بعد پیدائش کا سلسلہ منقطع ہو گیا کیونکہ وہ ناامیدی کی عمر کو پہنچ گئی تھی ‘ یہ بیٹا عبدالرحمن جب چار سال کی عمر کا ہوا تو اس کے بڑے بیٹے محمد کے گھر ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام مسعود رکھا گیا ‘ جب مسعود کی عمر ایک سال نو ماہ تھی تو اس کی دادی حاجن مسعودہ نے اپنا پستان اس کے منہ میں میں ڈال دیا جبکہ عبدالرحمن کا دودھ چھڑا دیا گیا تھا ‘ لہٰذا ہمیں معلوم نہیں کہ مسعوں نے جب پستان منہ میں لیا تو اس میں سے دودھ آیا یا نہیں ‘ اب سوال یہ ہے کہ مسعوں کے لئے اپنے چچا مختار کی بیٹی سے شادی کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس کے بارے میں دین کا کیا حکم ہے ؟
جس رضاعت سے حرمت ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے جو پانچ یا اس سے زیادہ رضعات پر مشتمل ہو اور یہ رضاعات دو سال کی عمر کے اندر ہو ‘ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘’ اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ حکم اس شخص کیلئے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے‘‘۔
اور حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ قرآن مجید میں دس معلوم رضعات کا حکم نازل ہوا تھا جس سے حرمت ثابت ہوتی تھی پھر ان کو پانچ رضعات کے ساتھ منسوخ کر دیا گیا ‘ اگر مسعود بن محمد نے اپنی دادی مسعودہ کا اس طرح دودھ پیا ہے جس طرح اس آیت اور حدیث میں ذکر ہے اور اس کی دادی مسعودہ کے سوال کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دودھ اتر آیا تھا تو پھر مسعود کیلئے اپنے چچا مختار کی بیٹی سے شادی کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ مذکورہ صورت میں وہ اس کا چچا ہے اور اگر دودھ کے اترنے میں شک ہو یا رضاعت پانچ رضعات سے کم ہو تو پھر اس سے شادی کرنا جائز ہو گا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب