السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شادی شدہ عورت کا اپنے اس شوہر کے گھر میں رہنے کے بارے میں کیا حکم ہے، جو نماز نہیں پڑھتا اور اس کی اس عورت سے اولاد بھی ہے؟ نیز بے نماز کورشتہ دینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب عورت کسی ایسے شوہر سے نکاح کرے جو نہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا ہے اور نہ گھر ہی میں نمازاداکرنے کا پابندہو تو ایسا نکاح صحیح نہیں ہے کیونکہ تارک نماز کافر ہے، جیسا کہ کتاب اللہ، سنت مطہرہ اور اقوال صحابہ سے معلوم ہوتا ہے، عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:
«کَانَ اَصْحَابُ النبیٍ لَا يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الْاَعْمَالِ تَرْکُهُ کُفْرٌ اِلاَّ الصَّلَاةَ» (جامع الترمذي، الايمان، باب ماجاء فی ترک الصلاة، ح: ۲۶۲۲)
’’اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اعمال میں سے نماز کے سوا اور کسی چیز کے ترک کو کفر نہیں سمجھتے تھے۔‘‘
اور کافر کے لیے مسلمان عورت حلال نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَإِن عَلِمتُموهُنَّ مُؤمِنـتٍ فَلا تَرجِعوهُنَّ إِلَى الكُفّارِ لا هُنَّ حِلٌّ لَهُم وَلا هُم يَحِلّونَ لَهُنَّ...﴿١٠﴾... سورة الممتحنة
’’سو اگر تم کو معلوم ہو کہ وہ مومن ہیں تو ان کو کفار کے پاس واپس نہ بھیجو کیونکہ نہ یہ ان کے لیے حلال ہیں اور نہ ہی وہ ان کے لئے جائز ہیں۔‘‘
اگر عقد نکاح کے بعد اس نے نماز کو ترک کیا ہو تو نکاح فسخ ہو جائے گا الایہ کہ وہ توبہ کر کے اسلام کی طرف رجوع کر لے۔ بعض علماء نے اسے عدت کے ساتھ بھی مقید کیا ہے یعنی اگر عدت ختم ہو جائے تو پھر اس کے لیے مسلمان ہونے پر رجوع حلال نہ ہوگا الایہ کہ نیا نکاح کرے۔ عورت کے لیے بھی واجب ہے کہ وہ اس سے جدائی اختیار کر لے اور اسے اپنے قریب نہ آنے دے الایہ کہ وہ توبہ کر کے نماز شروع کر دے، خواہ اس کی اس سے اولاد بھی ہو کیونکہ اس صورت حال میں باپ کو اپنی اولاد کا حق حضانت حاصل نہیں ہے۔
مسئلہ کی اس سنگینی کے پیش نظر میں اپنے مسلمان بھائیوں کو متنبہ کرتا ہوں کہ وہ اپنی بیٹیاں اور وہ عورتیں جن کے وہ ولی ہیں ایسے لوگوں کے نکاح میں نہ دیں جو نماز نہیں پڑھتے، کیونکہ یہ بہت خطرناک صورت حال ہے۔ اس مسئلہ میں وہ کسی قریبی رشتہ دار یا دوست کا لحاظ نہ کریں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب