السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک سائل نے یہ سوال پوچھا ہے کہ مطلقہ کی عدت کیا ہے ‘ نیز وہ مطلقہ جس کی طلاق رجعی ہو گیا وہ اپنے شوہر ہی کے گھر رہے تا کہ اس کا شوہر رجوع کر سکے یا وہ اپنے والدہ کے گھر چلی جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جس مطلقہ کی طلاق رجعی ہو اس کیلئے یہ واجب ہے کہ وہ اپنے شوہر ہی کے گھر میں رہے اور شوہر کیلئے اسے گھر سے نکلنا حرام ہے ‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ...١﴾... سور ة الطلاق
’’نہ تم ہی ان کو ایام عدت سے ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود ہی نکلیں ‘ ہاںل اگر وہ صریح بے حیائی بدکاری کریں تو نکال دینا چاہئے۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں۔ جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کریگا وہ اپنے آپ پر ظلم کریگا۔‘‘
آج کل لوگوں میں جو یہ رواچ ہے کہ جونہی کسی عورت کو رجعی طلاق ہوئی تو وہ فوراً اپنے والدین کے گھر چلی جاتی ہے ‘ یہ غلط اور حرام ہے ‘ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ...١﴾... سور ة الطلاق
’’نہ تو تم ہی ان کو ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود ہی نکلیں۔‘‘
اور استثناء کی صرف یہ ایک صورت بیان کی ہے کہ اگر وہ صریح بے حیائی زنا کا ارتکاب کریں تو پھر انہیں گھروں سے نکال دینا چاہئے اور پھر اس کے بعد فرمایا:
﴿ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ...١﴾... سور ة الطلاق
’’یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو شخص اللہ کی حدوں سے تجاوز کریگا ‘ وہ اپنے آپ پر ظلم کریگا۔‘‘
پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے شوہر کے گھر ہی میں رہنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
﴿لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّـهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا...١﴾... سور ة الطلاق
’’اے طلاق دینے والے تجھے کیا معلوم شاید اللہ اس کے بعد کوئی رجعت کی سبیل پید فرما دے۔‘‘
مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو مقرر کردہ حدود کی پابندی کریں ‘ اللہ نے انہیں جو حکم دیا ہے اس کی اطاعت بجا لائیں اور محض عادات کو شرعی امور کی مخالفت کا ذریعہ نہ بنائیں ‘ لہٰذا رجعی طلاق والی عورت کیلئے واجب کہ وہ عدت پوری ہونے تک اپنے شوہر ہی کے گھر میں رہے اور اس دوران وہ شوہر سے پردہ بھی کرے یگی ‘ بلکہ اس کے سامنے اظہار زیب و زینت اور اہتمام آرائش و زیبائش بھی کر سکتی ہے ‘ دونوں باہم دیگر گفتگو بھی کر سکتے ہیں اور اکٹھے بیٹھ بھی سکتے ہیں اور مباشرت کے سوا ہر کام کر سکتے ہیں ‘ مباشرت صرف رجوع کے وقت ہی کر سکتے ہیں اور رجوع کی صورت یہ ہے کہ شوہر زبان سے کہے کہ میں اپنی بیوی سے رجوع کرتا ہوں ‘ نیز وہ مراجعت کی نیت سے مباشرت کر کے عملاً بھی رجوع کر سکتا ہے۔
مطلقہ کی عدت کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر کسی عورت کو دخول و خلوت یعنی جماع و مباشرت سے قبل طلاق دے دی گئی ہ تو اس کیلئے مطلقاً کوئی عدت نہیں ہے ‘ وہ محض طلاق ہی بائنہ ہو جائیگی اور کسی دوسرے مرد سے شادی کرنا اس کیلئے حلال ہو جائیگا اور اگر دخول و خلوت اور مجامعت کے بعد طلاق دی ہو تو پھر عدت کی حسب ذیل صورتیں ہوں گی:
1. اگر عورت حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل تک ہے ‘ خواہ یہ مدت کم ہو یا زیادہ ‘ ممکن ہے کہ یک شخص نے اپنی بیوی کو صبح کے وقت طلاق ہو اور وہ ظہر سے پہلے بچے کو جنم دے دے تو اس کی عدت اسی سے پوری ہو جائیگی اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ ایک شخص نے ماہ محرم میں اپنی بیوی کو طلاق دی ہو اور اس کے ہاں بچے کی ولادت دوالحجہ کے مہینے میں ہو تو ایسی عورت کو بارہ ماہ کی عدت گزارنی ہو گی ‘ کیونکہ اس بارے میں اصول یہ ہے کہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے ‘ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ...٤﴾... سورة الطلاق
’’اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمی یعنی بچہ جننے تک ہے۔‘‘
2. اگر مطلقہ عورت حاملہ نہیں اور اسے حیض آتا ہو تو اس کی عدت طلاق کے بعد مکمل تین حیض ہے ‘ یعنی اسے حیض آئے اور پاک ہو جائے ‘ پھر آئے اور پاک ہو جائے اور پھر آئے اور پاک ہو جائے یعنی اس طرح اسے مکمل تین حیض آئیں خواہ ان کے درمیان کی مدت کم ہو یا زیادہ مثلاً: اگر کوئی شخص مرضعہ بچے کو دودھ پلانے والی کو طلاق دے دے اور اسے دو سال تک بھی حیض نہ آئے تو وہ عدت میں رہے گی ‘ حتیٰ کہ اسے تین بار حیض آ جائے اور اس طرح اسے دو سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ تک عدت میں رہنا پڑ سکتا ہے ‘ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ...٢٢٨﴾... سور البقرة
’’اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک انتظار کریں۔‘‘
3. جس عورت کو حیض نہ آتا ہوں خواہ اس کا سبب عدم بلوغت ہو یا کبر سنی بڑھاپا کی وجہ سے حیض سے مایوسی ہو تو اس کی عدت تین ماہ ہے ‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ...٤﴾... سورةالطلاق
’’اور تمہاری مطلقہ عورتیں جو حیض سے ناامید ہو چکی ہوں اگر تم کو ان کی عدت کے بارے میں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور جن کو ابھی حیض نہیں آنے لگا ان کی عدت بھی یہی ہے۔‘‘
4. اگر کسی کا حیض کسی سبب کی وجہ سے ختم ہو گیا ہو اور معلوم ہو کہ اب حیض کبھی نہیں آئیگا ‘ مثلاً یہ کہ آپریشن وغیرہ کے ذریعے اس کا رحم ہی نکال دیا گیا ہو تو یہ بھی حیض سے مایوس عورت کی طرح تین ماہ عدت گزارے گی۔
5. اگر حی ختم ہو گیا ہو اور اسے اس کے سبب کا بھی علم ہو تو اسے انتظار کرنا ہو گا حتیٰ کہ یہ سبب دور ہو جائے ‘ حیض آ جائے اور یہ اس کے مطابق عدت گزارے۔
6. حیض ختم ہو جائے مگر عورت کو اس کے سبب کا علم نہ ہو تو علما فرماتے ہیں کہ اسے مکمل ایک سال تک عدت گزارنی چاہیے اس میں نو ماہ حمل کے اور تین ماہ عدت کے ہونگے۔ یہ ہیں مطلقہ عورتوں کی عدت کی اقسام:
جس عورت کا نکاح خلع وغیرہ کی وجہ سے فسخ ہو گیا ہو اس کی عدت ایک حیض ہے ‘ یعنی جب کوئی شخص اپنی بیوی سے خلع کرے کہ اس عورت نے یا اس کے ولی نے کچھ مال دے دیا ہو کہ اس کے عوض وہ نکاح فسخ کر دے اور شوہر نے مال وغیرہ لے کر عورت کو الگ کر دیا ہو تو اسے عدت کیلئے ایک حیض ہی کافی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب