السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا قرآن و سنت وحدیث کی رو سےغیر محرم ڈاکٹرکا كسي عورت کا طبی معاینہ کرناممنوع یا حرام ہے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!برونائی دارالسلام میں منعقدہ آٹھویں اسلامی فقہی کانفرنس کے متفقہ فیصلے کے مطابق اگر مریضہ کے طبّی چیک اَپ کے لیے سپیشلسٹ لیڈی ڈاکٹر موجود ہو تو اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ بذاتِ خود چیک اَپ کا فریضہ سرانجام دے اور اگر مسلمان لیڈی ڈاکٹر میسّر نہ ہو تو غیر مسلم لیڈی ڈاکٹر بھی اُسے چیک کرسکتی ہے اور اگر غیر مسلم لیڈی ڈاکٹر میسر نہ ہوتو مسلمان ڈاکٹر یہ فریضہ سرانجام دے سکتا ہے اور اگر مسلمان ڈاکٹر میسر نہ ہو تو پھر غیر مسلم ڈاکٹر چیک اَپ کا فریضہ سرانجام دے سکتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ مرض کی تشخیص اور علاج کی غرض سے عورت کے بدن کے متاثرہ حصے کو ہی دیکھے اور حتی المقدورغض بصر سے کام لے اور پھر عورت کے علاج معالجے کا معاملہ،خلوتِ محرّمہ کے ارتکاب سے بچنے کے لئے خاوند یا محرم یا قابل اعتماد عورت کی موجودگی میں ہو ۔ مزید برآں فقہی کانفرنس محکمہ صحّت کے ذمہ داران کو تلقین کرتی ہے کہ وہ طبّی علوم کے شعبوں میں عورتوں کی اسپیشلائزیشن کی حوصلہ افزائی کریں خصوصاً تولیدووضع حمل جیسے نسوانی معاملات کےشعبے میں، اس بات کے پیش نظر کہ ان کے آپریشن کے لیے عورتیں بہت کم ہیں اور اس وجہ سے بھی کہ استثنائی قاعدے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اور بسااوقات بعض مریض خواتین ڈاکٹر کے کہنے سے پہلے ہی بغیر کسی مصلحت اور ضرورت کے اپنے بدن کا کوئی حصہ کھول دینے میں حرج محسوس نہیں کرتیں حالانکہ اُنہیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ شیخ ابن عثیمین سے مرد ڈاکٹر سے عورت کے علاج کے بارےمیں پوچھا گیا تو فرمایا: ''لیڈی ڈاکٹر دستیاب نہ ہونے کی صورت میں مرد ڈاکٹر سے عورت کے علاج میں کوئی حرج نہیں اور اہل علم نے جائزقرار دیا ہے کہ ایسی صورت میں مرد طبیب سے علاج کرانے میں کوئی حرج نہیں اور عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ ڈاکٹر کے سامنے اپنے بدن کا وہ حصہ کھول دے جس کے کھولے بغیر تشخیص اور علاج ممکن نہ ہو، البتہ اس صورت میں اس کےساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے ،کیونکہ غیر محرم طبیب کے ساتھ عورت کا علیحدگی میں ہونا حرام ہے۔ '' ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |