السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا ایک دوست تعودیہ میں کام کرتا ہے ،وہ ایک بہت بری عادت میں مبتلا تھا،جب بھی اسے چھوڑنے کی کوشش کرتا تو اسے چھوڑ نہیں سکتا تھا اور اس کا دوبارہ ارتکاب کرلیتا،ایک دن اس نے اپنے دل میں یہ قسم کھائی کہ اگر اس نے آئندہ اس کا ارتکاب کیا تو اس کی بیوی اس پر اس کی ماں بہن کی طرح حرام ہوگی،اس کی بیوی کو اس کی اس قسم کا علم بھی نہیں،کیونکہ وہ اس وقت اپنے ملک میں تھی ،اب سوال یہ ہے کہ اگر وہ آئندہ اس عادت کا ارتکاب کرے تو کیا اس کی بیوی مطلقہاور حرام ہوجائے گی یااس کی یہ قسم واقع نہیں ہوگی،کیونکہ اس کی بیوی کو تو اس کا علم ہی نہیں ہے اور نہ ہی بیوی کے ساتھ کوئی جھگڑا تھا،اس دوست نے وطن واپس جا کر اپنی بیوی سے مجامعت بھی کی ہے اسے اب کیا کرنا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سوال کا جوب دو طرح سے ہے ایک تو یہ کہ سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص ایک حرام عادت کا مرتکب تھا جو کسی مومن کے شایان شان نہیں،لٰہذا اس طرح کے حرام امور سے بچنے کیلئے مومن کو چاہیے کہ وہ قسموں کے بجائے دین کے ذریعہ کو استعمال کرے،کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ڈر اور خوف انسان کو حرام امور کے ارتکاب سے روکتا ہے۔اگر انسان کی نیت سچی اور عزم راسخ(پختہ) ہو اور وہ اللہ تعالیٰ سے مدد بھی طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے یقیناً آسانی کی صورت پیدا فرماتا دیتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بیوی کو ماں بہن کی طرح حرام قرار دینے سے اگر ارادہ قسم کا تھا اور اس معصیت سے باز رہنے کیلئے اس طرح قسم کھائی تو اس سے بیوی حرام نہ ہوگی اور نہ یہ صورت طلاق اور ظہار کی ہوگی لٰہذا قسم کا کفارہ ادا کر دیجیئے کیونکہ یہ مکمل طور پر قسم کے معنی میں ہے،اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ...﴿٨٩﴾... سورة المائدة
’’لیکن پختہ قسموں پر(جن کا خلاف کرو گے)وہ (اللہ)تم سے مواخذہ کرے گا۔‘‘
اس میں مدار نیت پر قرار دیا گیا ہے اور نبیؐ نے بھی فرمایا:
((إنما الأعمال بالنيات وإنمالكل امرىء ما نوى)) (صحيح البخاري)
’’اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کیلئے صرف وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی‘‘
اہم بات یہ ہے کہ اس سے اگر آپ کی نیت اس عادت سے باز رہنایا اس سے باز رہنے کیلئے تاکید تھی تو اس سے بیوی حرام نہیں ہوگی،لٰہذا آپ قسم کا کفارہ ادا کردیں جو یہ ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلا دیں،یا انہیں کپڑے دے دیں یا ایک غلام آزاد کردیں اور ایگر یہ آپ کو میسر نہ ہو تو تین دن کے روزے رکھ لیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب