السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے شوہر نے مجھے قسمیہ طلاق دی اور کہا کہ تو مجھ پر میری ماں بہن کی طرح حرام ہے ‘ لیکن بعد میں خوبی قسمت سے ہم نے رجوع کر لیا ‘ میں اس وقت سات ماہ کی حاملہ تھی ‘ میرے گھر والوں نے میرے شوہر سے کہا کہ وہ وضع حمل سے پہلے تیس مسکینوں کو کھانا کھلائے ‘ اب میں نے دو ماہ ہوئے بچے کو جنم دے دیا ہے ‘ میرے شوہر کے مالی حالات ساز گار نہیں ہیں لیکن اس کی نیت ضرور ہے کہ وہ تیس مسکینوں کو کھانا کھلائے گا مگر تاحال اس نے نہیں کھلایا ‘ میں ایک مسلمان اور دین دار عورت ہوں ‘ اللہ تعالیٰ سے بہت ڈرتی ہوں اور اس بات سے بھی بہت ڈرتی ہوں کہ کہیں میں اپنے شوہر کے ساتھ حرام زندگی تو بسر نہیں کر رہی ‘ امید ہے ان مذکورہ حالات میں میری رہنمائی فرمائیں گے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کے شوہر نے آپ کیلئے یہ جو الفاظ استعمال کئے ہیں یہ طلاق نہیں بلکہ ظہار ہے ‘ کیونکہ اس نے یہ کہا ہے کہ تو میرے لئے میری ماں بہن کی طرح حرام ہے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ‘ ظہار ایک انتہائی نامعقول اور بے حد جھوٹی بات ہے ‘ لہٰذا آپ کے شوہر کو اس بات سے توبہ کرنی چاہیے نیز اس کیلئے آپ سے اس وقت تک جنسی تعلقات قائم کرنا جائز نہیں جب تک کہ وہ یہ کام نہ کرے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ چنانچہ ظہار کے کفارہ کے بار میں ارشاد باری تعالیٰ یہ ہے:
﴿وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِن نِّسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِّن قَبْلِ أَن يَتَمَاسَّا ۚ ذَٰلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ﴿٣﴾ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِن قَبْلِ أَن يَتَمَاسَّا فَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا...﴿٤﴾... سورة المجادلة
’’اور جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ بیٹھیں ‘ پھر اپنی سیبات سے رجوع کرنا چاہیں تو ان کو ہم بستر ہونے سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ضروری ہے ‘ مومنو! اس حکم سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے۔ جس کو غلام نہ ملے وہ مجامعت سے پہلے متواتر دو مہینے کے روزے رکھے ‘ جو شخص اس کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو تو اسے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا چاہئے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی اطاعت کے بغیر اس کا آپ کے قریب آنا اور آپ سے مقاربت کرنا حلال نہیں اور نہ آپ کیلئے حلال ہے کہ اس حکم الٰہی کی تعمیل سے قبل اسے اپنے قریب آنے دیں ‘ اس کے گھر والوں کا یہ کہنا کہ وہ تیس مسکینوں کو کھانا کھلا دے ‘ غلط ہے ‘ کیونکہ جیسا کہ آپ نے سنا ارشاد باری تعالیٰ یہ ہے کہ اس صورت میں ایک غلام آزاد کیا جائے ‘ غلام نہ ملے تو متواتر دو مہینے کے روزے رکھے جائیں ‘ جس کے معنی یہ ہیں کہ ان دو مہینوں میں ایک دن کے روزے کا بھی ناغہ نہ کیا جائے ‘ الایہ کہ یہ بماری یا سفر وغیرہ کی وجہ سے کوئی شرعی عذر ہو اور جب یہ عذر ختم ہو جائے تو باقی رکھنا شروع کر دے اور اگر روزوں کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے اور کھانا کھلانے کی دو صورتیں ہیں: ایک تو یہ ہے کہ ساٹھ آدھمیوں کا کھانا تیار کر کے انہیں دعوت دے اور کھلا دے ‘ یا دوسری صورت یہ ہے کہ ان میں چاول یا کوئی جنس جسے لوگ کھاتے ہوں تقسیم کر دے ‘ گندم ایک مد فی کس اور اگر کوئی اور جنس ہو تو نصف صاع فی کس کے حساب سے تقسیم کر دے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب