سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(350) عقد سے پہلے ظہار اثر انداز نہیں ہوتا

  • 9805
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1347

سوال

(350) عقد سے پہلے ظہار اثر انداز نہیں ہوتا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی نے ایک عورت کو منگنی کا پیغام بھیجا مگر ابھی تک عقد نہیں کیا تھا اور پھر اس کے والد سے ناراضی کی وجہ سے یہ کہہ دیا کہ ’’یہ عورت میری ماں اور میری بہن کی طرح حرام ہے‘‘ پھر اس آدمی اور اس عورت کے والد کے درمیان صحیح ہو گئی اور اس کی رضا مندی سے مہر معین کے ساتھ عقد نکاح کر لیا‘ تو کیا شادی سے پہلے جو اس عورت کو حرام قرار دیا تھا اس کی وجہ سے اس پر کوئی چیز لازم ہو گی ؟ اور اگر اس صورت میں کوئی کفارہ وغیرہ ہے تو اس کی کیا صورت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس تحریم کا عقد نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑیگا کیونکہ یہ نکاح سے پہلے واقع ہوئی ہے‘ اس سے ظہار کا کفارہ بھی لازم نہیں ہو گا کیونکہ یہ واقعہ اس عورت کے بیوی بننے سے پہلے کا ہے جسے اس نے اپنے اوپر حرام قرار دیا ہے‘ ہال البتہ اس صورت میں قسم کا کفارہ لازم ہے‘ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّ‌مُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴿٨٧ وَكُلُوا مِمَّا رَ‌زَقَكُمُ اللَّـهُ حَلَالًا طَيِّبًا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ الَّذِي أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ ﴿٨٨ لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّـهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ ۖ فَكَفَّارَ‌تُهُ إِطْعَامُ عَشَرَ‌ةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِ‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَ‌ةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ...﴿٨٩﴾... سورة المائدة

’’مومنو! جو پاکیز چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں ان کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ اور جو حلال طیب روزی اللہ نے تم کو دی ہے اسے کھائو اور اللہ سے جس پر ایمان رکھتے ہوے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہاری بے ارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کریگا لیکن پختہ قسموں پر جن کیخلاف کرو گے مواخذہ کریگا تو اس کا کفارہ دس مکینوں کو اوسط درجنے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو‘ یا ان کو کپڑے دینا‘ یا ایک غلام آزاد کرنا اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے‘ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے‘ جب تم قسم کھا لو اور اسے توڑ دو اور تم کو چاہئے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔‘‘

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّ‌مُ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْ‌ضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١ قَدْ فَرَ‌ضَ اللَّـهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ ۚ وَاللَّـهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ﴿٢﴾... سورةالتحريم

’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم‘ جو چیز اللہ نے آپ کیلئے حلال قرار دی ہے آپ اس کو حرام ٹھہراتے ہیں‘ کیا آپ اس سے اپنی بیویوں کی  خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کیلئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کر دیا ہے اور اللہ ہی تمہارا کار ساز ہے اور وہ دانا اور حکمت والا ہے‘‘۔

لہٰذا جس شخص نے اس طرح حرام قرار دیا ہے اسے چاہیے کہ دس مسکینوں اور اوسط درجے کا کھانا کھلائے جو وہ اپنے اہل و عیال کو کھلاتا ہے اور وہ یہ کہ وہ آدمی ہر مسکین کو نصف صاع گندم یا کھجور یا چاول وغیرہ دے یا دس مسکینوں کو کپڑے دے یا ایک مسلمان غلام آزاد کر دے اور اگر یہ میسر نہ ہو تو مسلسل تین روزے رکھے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الظہار: جلد 3  صفحہ 330

محدث فتویٰ

تبصرے