السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آٹھ سال قبل میں نے اپنی بیوی کے میری بھابھی کے ساتھ ملاقات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے اختلافات کو ختم کرنے کیلئے یہ قسم کھائی تھی کہ اگر تو آئندہ میرے بھائی کے گھر گئی تو تجھے طلاق اور میرا اس سے مقصرد زجرو توبیخ اور اسے ڈرانا ہی تھا ‘ اسے واقعی طلاق دینا نہیں تھا‘ بہرحال میری بیوی نے اس کی پابندی کی اور وہ میرے گھائی کے گھر نہیں گئی حتی کہ ایک ایسی صورت حال پیدا ہو گئی جس نے میری بیوی کو بھائی کے گھر جانے پر مجبور کر دیا اور وہ یہ کہ میں بیرون ملک تھا کہ میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور عوتوں کیلئے تعزیت کی جگہ میرے بھائی کا گھر تھا‘ لہٰذا میری بیوی کسی دوسرے مسئلے سے قطع نظر تعزیت کیلئے میرے بھائی کے گھر چلی گئی اور جب میں وطن واپس آیا تو اس نے مجھے یہ صورت بتا کر کہا کہاس کے بارے میں علما کرام سے فتویٰ طلب کرو‘ لہٰذا امید ہے کہ حسب ذیل سوالات کے جوابات عطا فرمائیں گے
1. کیا اس صورت میں میری بیوی کو بھائی کے گھر جانے کی وجہ سے گناہ ہو گا ؟
2. میں نے جب طلاق کے ساتھ قسم کھائی تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟
3. اس صورت میں میوی بیوی کو کیا کرنا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر امر واقع اسی طرح ہے جس طرح آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے تو اس سے آپ کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوگی‘ کیونکہ اس کا مقصد بیوی کو اپنے بھائی کے گھر جانے سے منع کرنا تھا اسے طلاق دینا مقصود نہ تھا ‘ لہٰذا علما کے صحیح قول کے مطابق یہ طلاق نہیں ‘ بلکہ یہ قسم ہے اور آپ پر قسم کا کفارہ واجب ہے اور اگر آپ کا مقصد اس سے طلاق ہی تھا تو اس سے ایک طلاق واقع ہو جائیگی اور آپ کو عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہو گا بشرطیکہ آپ نے اسے سے پہلے اپنی بیوی کو دو طلاقیں نہ دی ہوں اور اگر عدت ختم ہو گئی تو پھر نئے نکاح اور اس کی معتبر شرطوں کے بغیر یہ آپ کو حلال نہ ہوگی بشرطیکہ آپ نے اس سے پہلے اسے دو طلاقیں نہ دی ہوں‘ جیسا کہ ہم نے ابھی ذکر کیا ہے‘ آپ کی بیوی آپ کی اجازت کے بغیر جو آپ کے بھائی کے گھر گئی تو اسے توبہ کرنا چاہئے نیز ہم آپ کو یہ بھی وصیت کریں گے کہ طلاق خواہ معلق ہو یا مؤجل اس کے بارے میں جلد بازی سے کام نہ لیں‘ طلاق صرف اس وقت دیں جب یہ ناگزیر اور شرعی مصلحت کا تقاضا ہو‘ اللہ تعالیٰ آپ دونوں کے حالات کی اصلاح فرمائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب