سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(336) اپنے آپ کو کسی چیز سے روکنے کیلئے طلاق کے ساتھ قسم کھانا

  • 9791
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1321

سوال

(336) اپنے آپ کو کسی چیز سے روکنے کیلئے طلاق کے ساتھ قسم کھانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک نوجوان ہوں‘ میری ایک لڑکی سے منگنی ہو چکی ہے ‘ مگر ابھی تک شادی نہیں ہوئی‘ میں بعض گناہوں میں مبتلا تھا اور اپنے نفس کو ان گناہوں سے باز رکھنے کیلئے قسم طلاق کھا لیتا تھا تا کہ میں ان گناہوں کا ارتکاب نہ کروں اور اپنے آپ کو ان سے باز رکھنے پر آمادہ ہوں‘ یعنی اس قسم سے میرا مقصد اپنی بیوی کو طلاق دینا نہیں تھا لیکن میں نے اس طرح کی قسم طلاق کئی بار کھائی مگر شہوت کی شدت اور ارادہ کی کمی کی وجہ سے میں پھر ان گناہوں میں مبتلا ہو جاتا تھا‘ حتی کہ اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی اور مجھے توبہ کی توفیق بخشی‘ سوال یہ ہے کہ اس صورتحال میں کیا حکم ہے ؟ کیا اس سے طلاق واقع ہو جاتی ہے ؟ رہنمائی فرمائیں!


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے جو ذکر کیا ہے یہ طلاق کی وہ قسم ہے جو کسی چیز کے کرنے یا نہ کرنے کے ساتھ معلق ہوتی ہے اور اس سے مقصود اپنے آپ کو کسی چیز سے روکنا ہوتا ہے‘ طلاق دینا مقصود نہیں تھا‘ لہٰذا اس صورت میں قسم کے برعکس کچھ کرنے یا نہ کرنے پر قسم کا کفارہ واجب ہوتا ہے‘ مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر اس نے سگریٹ پیا تو اس پر طلاق ہے‘ یا اگر اس نے فلاں شخص سے بات کی تو اس پر طلاق ہے اور اس سے مقصود سگریٹ نوشی اور فلاں شخص سے گفتگو سے اپنے آپ کو روکنا ہو اور طلاق دینا مقصود نہ تھا تو یہ طلاق نہیں بلکہ قسم ہوگی۔

مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس قسم کے الفاظ استعمال نہ کرے‘ کیونکہ بہت اہل علم کی رائے یہے کہ اس سے طلاق واقع ہو جائیگی خواہ طلاق دینا مقصود نہ بھی ہو اور نبی اکرم ؐ نے فرمایا ہے:

((إن الحلال بين وإن الحرام بين وبينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس فيمن اتقى الشبهات استبرأ لدينه وعرضه)) (صحيح البخاري)

’’حلال واضح ہے ‘ اور حرام بھی واقع ہے ‘ اور ان کے درمیان بہت سے مشتبہ امور ہیں ‘ جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے لیکن جو شخص ان مشتبہ امور سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا۔‘‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الطلاق : جلد 3  صفحہ 320

محدث فتویٰ

تبصرے