السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو اس دروازے سے باہر نکلی تو تجھے طلاق بھی ہو گی اور تو میری ماں ‘ بہن کی طرح مجھ پر حرام بھی ہو گی ‘ لیکن افسوس کہ وہ دروازے سے باہر نکل گئی لیکن اس دروازے سے نہیں ‘ جس کی طرف میں نے اشارہ کیا گیا ‘ اس بیوی کے بطن سے چونکہ میرے تین بچے بھی ہیں ‘ لہٰذا سوال یہ ہے کہ میں نے جو کہا ہے اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے اور مجھ پر کیا واجب ہے تا کہ میں رجوع کر لوں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سواب کا جواب دینے سے پہلے میں سوال کرنے والے بھائی اور دیگر لوگوں کی خدمت میں یہ نصیحت کروں گا کہ وہ الفاظ کے ساتھ اس طرح کا کھیل تماشا نہ کریں‘ کیونکہ اس طرح کے امور یمں تلاعب کھیل انہیں مشکلات میں مبتلا کر دیتا ہے بلکہ فتویٰ دینے والوں کو بھی مشکلات میں ڈال دیتا ہے‘ ایسی مشکلات میں جن کی کوئی حد نہیں ہوتی ‘ لہٰذا جو شخص قسم کھانا چاہے ‘ اسے چاہیے کہ وہ اللہ عزوجل کے نام کی قسم کھائے اور پھر عقل مند شوہر کو تو اس طرح کی باتوں کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ‘ وہ تو منع کرنے کے کسی بھی کلمہ سے اپنی بیوی کو منع کر سکتا ہے‘ ہاں البتہ وہ مرد جو اپنی کے سامنے کمزور ہو اور وہ اس کی خواہشات ہی کے پیچھے لگا رہے ‘ خواہ وہ حق کیخلاف ہی کوں نہ ہو‘ تو وہ مرد عقل اور مردانگی کے اعتبار سے ناقص ہے۔ لیکن انسان کو چاہئے کہ وہ سختی کے بغیر قوی اور کمزوری کے بغیر نرم ہو اور اہلخانہ کے سامنے ایسے الفاظ استعمال کرے جن کا وزن اور قیمت ہو تا کہ وہ خوشگوار زندگی بسر کر سکیں ‘ میرا یہ مقصد نہیں ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کے سامنے سختی اور درشت روئی کا مظاہرہ کرے اور ان سے ہشاش بشاش چہرے سے پیش ہی نہ آئے بلکہ میرا مقصد یہے کہ انسان اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہشاش بشاش ‘ خوش و خرم اور نرم خو ہونے کے ساتھ ساتھ عقل مند ‘ مضبوط ‘ مستحکم اور غیر مغلوب ہو۔
مذکورہ سوال کا جواب یہ ہے کہ جب کوئی مرد اپنی بیوی سے کہے کہ اگر تو اس دروازے سے نکلی تو تجھے طلاق اور تو میری ماں بہن کی طرح مجھ پر حرام ہ ے‘ تو یہ بات دو حالتوں سے خالی نہیں:
ایک تو یہ کہ وہ اسے محض منع کرنا چاہتا ہے اس کا مقصد اسے طلاق دینا یا اپنے اوپر حرام کرنا نہیں ہے ‘ لیکن شدت سے منع کرنے کیلئے اس نے گفتگو کی یہ صورت اختیار کی‘ تو اس حالت میں ان الفاظ کا حکم قسم کا ہو گا ‘ جیسا کہ اہل علم کا راجح قول یہی ہے ‘ لہٰذا اگر وہ دروازے سے نکل جائے تو اس سے اسے طلاق نہیں ہو گی‘ ہاں البتہ اس پر کفارہ قسم واجب ہو جائیگا اور اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں کہ وہ اسی مخصوص دروازے سے نکلے یا گھر کے کسی اور دروازہ سے ‘ کیونکہ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مقصد گھر سے نکلنے سے منع کرنا تھا‘ کسی معین دروازے سے نکلنے سے منع کرنا نہ تھا ‘ الایہ کہ اس معین دروازے میں کوئی ایسی خاص بات ہو جو اس کی تخصیص کا تقاضا کرتی ہو تو پھر حکم اسی دروازے ہی کے ساتھ خاص ہو گا۔
دوسری حالت یہ ہے کہ ان الفاظ سے اس کا ارادہ طلاق اور تحریم ہی کا ہے تو اس حالت میں اگر وہ اس دروازے سے یا گھر کے کسی بھی دروازے سے نکل جائے تو اسے طلاق ہو جائیگی اور اس کا شوہر مظاہر ظہار کرنے والا ہو گا ‘ لہٰذا جب اسے طلاق ہو جائے اور اس سے پہلے شوہر نے اسے دو طلاقیں نہ دی ہوں تو اسے رجوع کا حق ہے‘ لیکن اس وقت تک وہ بیوی کے قریب نہیں جا سکتا جب تک ظہار کا کفارہ ادا نہ کرے دے اور وہ یہ کہ ایک مومن غلام گردن کو آزاد کرے‘ اگر وہ موجود نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے۔
یاد رہے کہ اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہو گا کہ وہ عورت اسی معین دروازے سے نکلی ہے یا گھر کے کسی اور دروازے سے کیونکہ الفاظ سے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مقصد تھا کہ وہ گھر سے باہر نہ نکلے‘ حتی کہ اگر وہ دیوار پھلانگ کر نکل جائے تو پھر بھی یہی حکم ہو گا‘ الایہ کہ اس معین دروازے میں کوئی ایسی خاص بات ہو جو تخصیص کا درجہ رکھتی ہو تو اس صورت میں کسی دوسرے دروازے سے باہر نکلنے کی صورت کی میں نہ عورت کو طلاق ہو گی اور نہ مرد کیلئے ظہار ثابت ہوگا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب