السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم اکثر سنتے رہتے ہیں کہ بعض نوجوان جو بیرون ملک جاتے ہیں اور شادی شدہ ہونے کے باوجود وہاں جا کر جرم زنا کا ارتکاب کرتے ہیں‘ کیا اس کی وجہ سے ان کی بیویوں کو طلاق ہوتی ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
انسان کے زنا میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس کی بیوی کو طلاق تو نہیں ہوئی لیکن اس پر یہ ضرور واجب ہے کہ وہ ایسے سفروں اور اختلاط سے پرہیز کرے جو بدکاری کا سبب بنتے ہوں‘ انسان پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے‘ اس کے احکام کی نگہداشت کرے اور اپنی شرمگاہ کی حرام کام سے حفاظت کرے‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلا تَقرَبُوا الزِّنىٰ ۖ إِنَّهُ كانَ فـٰحِشَةً وَساءَ سَبيلًا ﴿٣٢﴾... سورة الاسراء
’’اور زنا کے قریب تک بھی نہ جائو کیونکہ وہ بے حیائی اور بری راہ ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿وَالَّذينَ لا يَدعونَ مَعَ اللَّهِ إِلـٰهًا ءاخَرَ وَلا يَقتُلونَ النَّفسَ الَّتى حَرَّمَ اللَّهُ إِلّا بِالحَقِّ وَلا يَزنونَ ۚ وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ يَلقَ أَثامًا ﴿٦٨﴾ يُضـٰعَف لَهُ العَذابُ يَومَ القِيـٰمَةِ وَيَخلُد فيهِ مُهانًا ﴿٦٩﴾ إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صـٰلِحًا فَأُولـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّـٔاتِهِم حَسَنـٰتٍ ۗ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٧٠﴾... سورة الفرقان
’’اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جس جان دار کو مار ڈالنا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے‘ مگر جائز طریق (یعنی شریعت کے حکام) سے اور بدکاری نہیں کرتے اور جو کوئی یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہو گا۔ قیامت کے دن اس کو دو گنا عذاب ہو گا او ذلت و خواری سے ہمیشہ اس عذاب میں رہے گا‘ مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھے کام کئے۔‘‘
یہ دونوں عظیم آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ زنا اور اس تک پہچانے والے اسباب کے قریب بھی جانا حرام ہے‘ دوسری آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے‘ یا کسی انسان کو ناحق قتل کر ے‘ یا زنا کرے تو اسے دو گنا عذاب ہو گا اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا‘ یہ عظیم و عید اس بات پر دلالت کناں ہے کہ زنا بھی ان کبیرہ گناہوں میں سے ہے جو جہنم اوراس میں ہمیشہ رہنے کا موجب ہیں لیکن زانی اور قاتل جہنم میں خلود ہمیشگی مشرک کے خلود دوام کی طرح نہیں ہو گا‘ جو کبھی ختم ہی نہ ہو ‘ کیونکہ مشرک کا عذاب تو ابدالآباد تک ہمیشہ ہیمشہ کیلئے جاری و ساری رہے گا۔
زانی اور قاتل اگر زنا و قتل کو حلال نہ سمجھیں تو اہل سنت کے نزیک ان کے خلود کی انتہا ہے ‘ جبکہ مشرک کے خلود کی کوئی انتہا نہیں ہے ‘ صحیح حدیث میں ہے:
((لا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ ، وَلا يَشْرَبُ الْخَمْرَ شَارِبُهَا حِينَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ ، وَلا يَنْتَهِبُ مُنْتَهِبٌ نُهْبَةً يَرْفَعُ النَّاسُ إِلَيْهِ فِيهَا أَبْصَارَهُمْ حِينَ يَنْتَهِبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ))( صحيح البخاري )
’’زانی جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہو تا‘ چور جب چوری کرتا ہے تو وہ مومن ہیں ہوتا‘ اور شرابی جب شراب پیتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا‘‘۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ زانی‘ چور اور شرابی جب ان گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں تو ان کا ایمان زائل ہو جاتا ہے یعنی وہ ایمان واجب کے کمال سے محروم ہو جاتے ہیں‘ یا یوں کہہ لیجئے کہ ایمان کامل اور اللہ تعالیٰ کے خوف کامل کے نہ ہونے اور ان فواحش و منکرات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے خوفناک نتائج کے عدم استضار ہی نے ان لوگوں کو ان خطرناک جرائم میں مبتلا کیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب