السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص اپنی بیوی کے طلاق کے معاملہ میں وسوسہ میں بہت زیادہ مبتلا ہے‘ چانچہ جب کسی مسئلہ میں اس سے گفتگو کرتا ہے تو پھر اپنے جی میں کہتا ہے کہ تجھے طلاق ہے‘ مگر زبان سے ان الفاظ کو وہ ادا نہیں کرتا لیکن وہ اپنے دل میں شکت بہت زیادہ کرتا ہے تو اسے کیا کرنا چاہئے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سواب کا جواب دینے سے پہلے میں اپنے اس سوال کرنے والے بھائی اور دیگر بھائیوں کے سامنے یہ بات بیان کرنا پسند کروں گا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
﴿إِنَّ الشَّيطـٰنَ لَكُم عَدُوٌّ فَاتَّخِذوهُ عَدُوًّا ۚ إِنَّما يَدعوا حِزبَهُ لِيَكونوا مِن أَصحـٰبِ السَّعيرِ ﴿٦﴾... سورةفاطر
’’شیطان تمہارا دشمن ہے تم بھی اسے دشمن ہی سمجھو وہ اپنے (پیروئوں کے ) گروہ کو بلاتا ہے تا کہ وہ دوزخ والوں میں سے ہوں۔‘‘
شیطان انسان کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے جس سے انسان قلق و اضطراب میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی مکدر ہو کر رہی جاتی ہے‘ چنانچہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ سنیے:
﴿إِنَّمَا النَّجوىٰ مِنَ الشَّيطـٰنِ لِيَحزُنَ الَّذينَ ءامَنوا وَلَيسَ بِضارِّهِم شَيـًٔا إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَليَتَوَكَّلِ المُؤمِنونَ ﴿١٠﴾... سورة الممتحنة
’’کافروں کی سرگوشیاں تو شیطان کی حرکات سے ہیں جو اس لئے کی جاتی ہیں کہ مومن ان سے غمناک ہوں مگر اللہ کے حکم کے سوا ان سے انہیں کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا۔‘‘
اس سے واضح ہوا کہ شیطان کی کوشش ہے کہ وہ انسان کو ایسی باتوں میں مبتلا کرے جن سے وہ غمناک ہو‘ نیز شیطان کی یہ بھی کوشش ہے کہ وہ اس کے دین کو خراب کرے‘ شیطان سے خلاصی حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ صدق اور اخلاص کے ساتھ اپنے رب کی طرح رجع کرے اور شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرتا رہے‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِمّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيطـٰنِ نَزغٌ فَاستَعِذ بِاللَّهِ...٣٦﴾... سورة فصلت
’’اور اگر تمہیں شیطان کی جانب سے کوئی وسوسہ پیدا ہو تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔‘‘
انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جائے تا کہ اللہ تعالیٰ اس دشمن سے اسے محفوظ رکھے ‘ جب بندہ اپنے رب کی پناہ طلب کر لے ‘ صدق دل سے اس کی طرف رجوع کر لے ور شیطان سے اس طرح اعراض کر لے گویا ان وسوسوں کا کوئی وجود ہی نہ تھا تو اللہ تعالیٰ بھی اسے سے وسوسوں کو دور فرما دیتا ہے۔
اس بھائی کو بھی اپنی بیوی کی طلاق کے سلسلہ میں وسوسوں میں مبتلا ہے‘ میری یہ بھی نصیحت ہے کہ وہ ان وسوسوں کی طرف دھیان نہ دے ان سے کلی طور پر اعراض کر لے اور جب دل میں کوئی وسوسہ آئے تو شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے‘ اس طرح اللہ تعالیٰ اس سے وسوسہ دور فرما دے گا۔
حکم کے اعتبار سے بات یہ ہے کہ اس طرح کے وسوسوں سے طلاق واقع نہیں ہوتی کیونکہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا ہے:
((إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ تَجَاوَزَ لأُمَّتِي عَمَّا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا ، مَا لَمْ تَعْمَلْ بِهِ ، أَوْ تَكَلَّمْ بِهِ)) ( صحيح البخاري)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت سے اس چیز سے درگزر فرمایا ہے جو دل میں پیدا ہو جب تک اس کے مطابق عمل نہ کر لیا جائے ‘ اسے زبان سے ادا نہ کیا جائے۔‘‘
جو چیز انسان کے دل میں آئے‘ اسے کچھ شمار نہیں کیا جاتا‘ حتی کہ دل میں اگر طلاق کے بارے میں بھی وسوسہ پیدا ہو تو اسے طلاق شمار نہیں کیا جائیگا‘ حتی کہ اگر کوئی دل میں طلاق دینے کا ارادہ بھی کرے تو جب تک وہ اپنی زبان سے طلاق کے الفاظ ادا نہ کر ے طلاق نہیں ہو گی‘ مثلاً وہ کہے کہ تجھے طلاق ہے‘ پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ وسوسوں میں مبتلا انسان کی طلاق واقع نہیں ہوتی‘ خواہ وہ زبان سے بھی الفاظ ادا کرے دے‘ الایہ کہ اس نے قصد و ارادہ کے ساتھ الفاظ ادا کئے ہوں اور چونکہ وسوسہ میں مبتلا انسان کی زبان سے الفاظ بلا قصد و ارادہ نکلے ہیں بلکہ وہ مغلق اور مکرہ مجبور الحال جس پر جبر کیا گیا ہو‘ وسوسے کی قوت اور اس کو منع کرنے کی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا ہے:
((لا طلاق في إلاق )) ( تلخيص الحبير )
’’جبر (زبردستی) کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔‘‘
لہٰذا جب تک وہ طمانیت کے ساتھ حقیقی ارادہ نہیں کرتا‘ اس کی طرف سے طلاق واقع نہ ہو گی اور قصد و اختیار کے بغیر اس کی زبان سے جو الفاظ نکلتے ہیں‘ ان سے طلاق نہیں ہوگی۔
اس طرح کے وسوسوں کے شکار ایک شخص نے ایک بار مجھ سے یہ ذکر کیا کہ میں ان وسوسوں کی وجہ سے اس قدر قلق و اضطراب میں مبتلا ہو گیا کہ میں نے چاہا کے واقعی طلاق دے دوں‘ چنانچہ اس نے ان وسوسوں سے نجات پانے کیلئے واقعی حقیقی ارادے ک ساتھ طلاق دے دی‘ کیونکہ یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے‘ کیونکہ شیطان یہی تو چاہتا ہے کہ آدمی اور کی بیوی میں تفریق پیدا کر دے‘ خصوصاً جب کہ ان کی اولاد بھی ہو۔
بہرحال جو شکوک و شبہات بھی پیدا ہوں‘ انسان پر واجب ہے کہ وہ انہیں جھٹک دے‘ ان کا اعتبار نہ کرے اور ان سے اعراض کر لے حتی کہ یہ اللہ کے حکم سے ختم ہو جائیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب