سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(319) ضرورت کے بغیر طلاق مکروہ ہے

  • 9774
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1269

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک شادی شدہ مسلمان نوجوان ہوں‘ میرے و بچے ہیں‘ میں نے 1981 ء میں شادی کی تھی‘ میں اپنی بیوی سے کامل (بھرپور) محبت و احترام سے پیش آتا ہوں لیکن وہ مجھے ناپسند کرتی اور میرے والدین کو گالیاں دیتی ہے‘ میں نے اسے ہر طرح سے سمجھان کی کوشش کی لیکن وہ سمجھے کے بجائے مجھے جاہل اور غیر مہذب کہتی ہے حتی کہ اب اس نے نماز بھی چھوڑ دی ہے‘ لہٰذا میں اپنی اس بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس کے اور دونوں بچوں ک حقوق کو ملحوظ رکھتے ہوئے صحیح طریقہ سے طلاق دوں‘ لہٰذا اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ضرورت کے بغیر طلاق دینا مکروہ ہے‘ اگر امر واقع اسی طرح ہے جیسے سوال میں مذکور ہے تو پھر اس عورت کو اپنے پاس رکھنا‘ خصوصاً جب کہ اس نے نماز بھی چھوڑ دی ہے‘ جائز نہیں ہے‘ لہٰذا اسے طلاق دے دیں جس کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اسے اس کی ایسی حالت طہارت میں ایک طلاق دیں جس میں اس سے مقاربت نہ کی ہو‘ اس طلاق کے بعد اسے گھر میں رہنے دیں حتی کہ یہ عدت گزار لے ‘ اس دوران اسے سامان یعنی لباس اور خرچ وغیرہ بھی دیں بچوں کو اسی کے پاس رہنے دیں حتی کہ یہ شادی کر لے‘ پھر آپ کو حق حاصل ہو گا کہ بچے اس سے واپس لے لیں‘ جب تک بچے اس کے پاس رہیں آپ پر تنگ دستی و خوشحالی کے مابین عام عادت کے بقدر ان کا خرچہ بھی واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ سَيَجعَلُ اللَّهُ بَعدَ عُسرٍ‌ يُسرً‌ا ﴿٧﴾... سورة الطلاق

’’اللہ تعالیٰ عنقریب تنگی کے بعد کشائش بچے گا۔‘‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الطلاق : جلد 3  صفحہ 302

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ