السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اسلامی شریعت سے یہ بات ثابت ہے کہ طلاق شوہر کا حق ہے لیکن جمہور علماء کا جو یہ مذہب ہے کہ طلاق کا حق بیوی کو بھی سونپا جا سکتا ہے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو طلاق دے سکتی ہے یا یہ حق کسی وکیل کے سپرد بھی کیا جا سکتا ہے اور وہ اس طرح کہ شوہر کسی کو یہ حق تفویض کر دے کہ وہ اس کی طرف سے اس کی بیوی کو طلاق دے، میرا سوال اس سلسلہ میں یہ ہے کہ کیا یہ حکم نبی اکرمﷺ سے ثابت ہے کہ آدمی طلاق کا حق اپنی بیوی یا کسی اور شخص کے سپرد کر سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت یا کسی اور شخص کو طلاق کے لئے وکیل بنانے کے بارے میں مجھے نبی اکرمﷺ کی کوئی حدیث معلوم نہیں ہے لیکن علماء نے یہ مسئلہ کتاب و سنت کے ان دلائل سے اخذ کیا ہے جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ مالی حقوق وغیرہ میں کسی سمجھدار آدمی کو وکیل بنانا جائز ہے۔
طلاق دینا شوہر کا حق ہے لیکن اگر وہ طلاق کا یہ حق اپنی بیوی یا کسی ایسے شخص کو سونپ دے جس کی طرف سے وکالت(سپردگی) کی نسبت صحیح ہو تو اس میں شرعی قاعدہ پر عمل کے پیش نظر کوئی حرج نہیں لیکن شوہر کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ وکیل کو یہ حق دے کہ وہ اکٹھی تینوں طلاقیں دے دے کیونکہ اکٹھی تین طلاقیں دینا خود شوہر کے لئے بھی جائز نہیں ہے۔ لہٰذا وکیل کے لئے یہ بالا ولی جائز نہیں ہو گا، چنانچہ امام نسائیؒ نے جید سند کے ساتھ محمود بن لبیدؓ کی یہ روایت ذکر کی ہے کہ نبیﷺ کی خدمت میں جب یہ عرض کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں اکٹھی دے دی ہیں تو آپ ناراض ہوئے اور فرمایا:
((أيلعب بكتاب الله وأنا بين أظهركم )) ( سنن النسائي )
’’کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا(مذاق کیا) جارہا ہے حالانکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں۔‘‘
اور صحیحین میں حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے جب طلاق کے متعلق ان سے پوچھا تو فرمایا:
((أما انت طلقتها ثلاثا فقد عصيت ربك فيما أمرك به من طلاق امرأتك )) ( صحيح مسلم )
’’آپ نے جو اسے تینوں طلاقیں اکٹھی دے دی ہیں تو بیوی کے طلاق دینے کے بارے میں تو نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی ہے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب