السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رئیس عام ادارارت بحوث علمیہ و افتاء سے سوال پوچھا گیا کہ عورت مطلقہ کب شمار ہو گی؟ او طلاق کے جواز میں کیا حکمت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے اس سوال کا یہ جواب دیا کہ عورت کو اس وقت مطلقہ سمجھا جائے گا جب اس کا شوہر مکلف و مختار ہو اور وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور طلاق کے وقوع سے جنون یا نشہ وغیرہ کا کوئی امر مانع بھی نہ ہو، نیز عورت طاہر ہو کہ اس طہر میں شوہر نے اس سے مجامعت بھی نہ کی ہو یا وہ حاملہ ہو اور اگر شوہر مجنون ہو یا اسے مجبور کیا گیا ہو یا وہ نشہ کی حالت میں ہو یا وہ اس قدر شدید غصے کی حالت میں ہو کر طلاق کے نقصان کو سمجھنے سے عاجز ہو، واضح اسباب بھی اس بات کی تائید کرتے ہوں کہ اس نے شدید غصے کی حالت میں طلاق دی ہے، مطلقہ بھی اس ات کی تصیدق کرے یا معتبر گواہی سے اس کی تصدیق ہو تو علماء کے صحیح قول کے مطابق اس صورت میں طلاق واقع نہ ہوگی کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:
((رفع القلم عن ثلاثة: عن النائم حتى يستيقظ وعن الصبي حتى يحتلم وعن المجنون حتى يعقل )) ( سنن أبي داؤد)
’’تین شخص مرفوع القلم ہیں1۔ سویا ہوا حتیٰ کہ بیدار ہو جائے۔2۔ اور بچہ حتیٰ کہ بالغ ہو جائے۔3۔ اور مجنون حتیٰ کہ سمجھنے لگے۔‘‘
اور ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
﴿مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعدِ إيمـٰنِهِ إِلّا مَن أُكرِهَ وَقَلبُهُ مُطمَئِنٌّ بِالإيمـٰنِ ... ﴿١٠٦﴾... سورة النحل
’’جو شخص ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے، وہ نہیں جو(کفر پر زبردستی) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو۔‘‘
جب اس شخص کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا، جسے کفر پر مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو تو اس شخص کی طلاق تو بالا ولی واقع نہ ہو گی جس نے محض جبر(زبردستی) کی وجہ سے طلاق دی ہو کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((لاطلاق ولا عتاق فى إغلاق )) ( سنن أبي داؤد)
’’جبر کی طلاق اور آزدای نہیں ہے۔‘‘
اہل علم کی ایک جماعت نے ، جس میں امام احمدؒ بھی ہیں، اس حدیث میں وارد لفظ’اغلاق‘ کے معنی جبر اور شدید غصے کے کئے ہیں، خلیفہ راشد حضرت عثمانؓ اور اہل علم کی ایک جماعت نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ نشہ میں مبتلا اس شخص کی طلاق واقع نہیں ہوتی کہ نشہ نے جس کی عقل کو مائوف کر دیا ہو، اگرچہ نشہ کی وجہ گناہ گار ہو گا۔
طلاق کے جواز میں جو حکمت تو بے حد واضح ہے کہ کبھی بیوی شوہر کے مناسب نہیں ہوتی اور کبھی شوہر بہت سے اسباب مثلاً ضعف عقل، ضعف دین یا بے ادبی کی وجہ سے بیوی سے نفرت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے کشادگی کا طریقہ یہ رکھا ہے کہ اسے طلاق دے کر اپنی عصمت (زوجیت) سے خارج کر دے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِن يَتَفَرَّقا يُغنِ اللَّهُ كُلًّا مِن سَعَتِهِ ۚ ... ﴿١٣٠﴾... سورة النساء
’’اور اگر میاں بیوی میں موافقت نہ ہو سکے اور ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تو اللہ ہر ایک کو اپنے فضل سے ایک دوسرے سے بے نیاز کر دے گا۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب