السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس آیت کریمہ کے معنی کیا ہیں؟
﴿الزّانى لا يَنكِحُ إِلّا زانِيَةً أَو مُشرِكَةً وَالزّانِيَةُ لا يَنكِحُها إِلّا زانٍ أَو مُشرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى المُؤمِنينَ ﴿٣﴾... سورة النور
’’زانی مرد سوائے زانیہ یا مشرکہ کے کسی سے شادی نہیں کر سکتا اور زانیہ سے بھی سوائے زانی یا مشرک مرد کے اور کوئی شخص نکاح نہیں کر سکتا، اور یہ( بدکاروں سے نکاح) اہل ایمان(تمام مسلمانوں ) کے لئے حرام قرار دیا گیا ہے۔‘‘
کیا اس جرم کے ارتکاب کی وجہ سے ایمان ختم ہو جاتا ہے اور انسان مشرک ہو جاتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب ہم اس آیت کریمہ کو پڑھتے ہیں، جس کے اختتام پر اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ کو ذکر فرمایا ہے:
﴿وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى المُؤمِنينَ ﴿٣﴾... سور ة النور
’’او یہ مومنوں پر حرام ہے۔‘‘
تو ان الفاظ سے ہم زانی مرد اور عورت کے نکاح کی حرمت کا حکم اخذ کرتے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی زانیہ عورت سے شادی کرے اور نہ یہ جائز ہے کہ وہ کسی زانی مرد کو اپنی بیٹی کا رشتہ دے اور جب ہم نے یہ جان لیا کہ
﴿وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى المُؤمِنينَ ﴿٣﴾... سور ة النور
تو جو شخص اس جرم کا ارتکاب کرے اگر وہ اس کی حرمت کو جانتا ہے اور اس حکم کو جانتے ہوئے محض اپنی خواہش نفس اور شہوت سے بدکار عورت سے شادی کرتا ہے تو وہ بھی زانی ہو گا کیونکہ اس نے ایک ایسا حرام عقد کیا ہے جس کے بارے میں وہ یہ جانتا بھی ہے کہ یہ حرام ہے اور یہ معلوم ہے کہ عقد حرام شرمگاہ کو اس سے لطف اندوز ہونے کو جائز قرار نہیں دیتا۔ لہٰذا اس آدمی کے اس بدکار عورت کی شرمگاہ کو حلال سمجھنے اور یہ جاننے کے باوجود کہ اس سے نکاح کرنا حرام ہے، نکاح کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس کا یہ فعل زنا ہے، یا اس کی صورت یہ ہو گی کہ وہ اس حکم کو نہیں مانتا ہو گا اور کہتا ہو گا کہ اس عورت سے شادی بالکل حرام نہیں بلکہ حلال ہے تو اس صورت میں وہ مشرک ہو گا کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شارع بنا وہ اللہ تعالیٰ کا شریک بن بیٹھا، اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿أَم لَهُم شُرَكـٰؤُا۟ شَرَعوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ...٢١﴾... سورة الشورى
’’کیا وہ ان کے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو جو اس کے بندوں کے لئے دین کی ایسی باتیں ایجاد کرتے ہیں، جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا، شریک قرار دیا ہے تو یہ آدمی جس نے اپنے لئے زانیہ کو حلال قرار دے لیا ہے اور اس سلسلے میں حکم شرعی کی پابندی نہیں کی تو یہ مشرک ہے خلاصہ کلام یہ ہے کہ زانیہ سے نکاح کرنے والا اگر اسے حرام جانتا اور مانتا ہے تو وہ زانی ہو گا اور اگر وہ اسے حرام نہیں سمجھتا بلکہ اس کی حرمت کا منکر ہے تو وہ مشرک ہو گا کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کام کو حلال قرار دے لیا ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
﴿لا يَنكِحُها إِلّا زانٍ أَو مُشرِكٌ...٣﴾... سورة النور
’’بدکار عورت کو بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا۔‘‘
اگر یہ شخص بدکار عورت سے نکاح کی حرمت کو جانتے بوجھتے ہوئے نکاح کرتا ہے تو یہ زانی ہے اور اگر یہ حرمت کو نہیں مانتا تو یہ مشرک ہے یہی بات ہم اس شخص کے بارے میں کہیں گے جو کسی زانی مرد سے اپنی بیٹی کا نکاح کرتا ہے ہاں البتہ توبہ کرنے سے یہ حکم ختم ہو جائے گا یعنی اگر بدکار مرد اور عورت بدکاری سے توبہ کر لیں تو ان سے زانی کا واصف زائل ہو جائے گا جس طرح توبہ کرنے اور فسق ترک کرنے سے فسق کا وصف زائل ہو جاتا ہے لہٰذا اگر زانی مرد و عورت توبہ کر لیں تو پھر نکاح حلال ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب