السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں پہلی عمر میں نماز نہیں پڑھتا تھا او اسی حالت میں شادی کر لی، الحمد اللہ اب اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت عطا فرما دی ہے ، سوال یہ ہے کہ کیا میرا عقد نکاح صحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر بوقت عقد تمہاری بیوی بھی تمہاری طرح نماز نہیں پڑھتی تھی تو عقد نکاح صحیح ہے اور اگر وہ نماز پڑھتی تھی تو پھر تجدید نکاح واجب ہے کیونکہ مسلمان عورت کے لئے کافر سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلا تُنكِحُوا المُشرِكينَ حَتّىٰ يُؤمِنوا...٢٢١﴾... سورة البقرة
’’مشرک مرد جب تک ایمان نہ لائیں، مومن عورتوں کو ان کی زوجیت میں نہ دینا۔‘‘
اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ مشرکوں کی مسلمان عورتوں سے شادی نہ کرو حتیٰ کہ مسلمان ہو جائیں، نیز سورۃ الممتحنہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَإِن عَلِمتُموهُنَّ مُؤمِنـٰتٍ فَلا تَرجِعوهُنَّ إِلَى الكُفّارِ ۖ لا هُنَّ حِلٌّ لَهُم وَلا هُم يَحِلّونَ لَهُنَّ...١٠﴾... سورة الممتحنة
’’اگر تم کو معلوم ہو کہ مومن ہیں تو ان کو کفار کے پاس واپس نہ بھیجو کہ نہ یہ ان کو حلال ہیں اور نہ وہ ان کو جائز۔‘‘
اور معلوم ہے کہ ترک نماز کفر اکبر ہے خواہ تارک اس کے وجوب کا انکار نہ بھی کرے، چنانچہ اس مسئلے میں علماء کا صحیح ترین قول یہی ہے کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:
((العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة فمن تركها فقد كفر )) ( جامع الترمذي)
’’ہمارے اور کافروں کے درمیان عہد نماز کا ہے جو اسے ترک کر دے تو وہ کافر ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمدؒ اور اصحاب سنن اربعہ نے صحیح سندھ کے ساتھ روایت کیا ہے نیز آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے:
((إن بين الرجل وبين الشرك والكفر ترك الصلاة )) ( صحيح مسلم)
’’آدمی اور شرک و کفر کے درمیان فرق نماز سے ہے۔‘‘
تابعی جلیل حضرت عبداللہ بن شفیق عقیلیؒ فرماتے ہیں کہ اس بات پر تمام صحابہ کرامؓ کا اجماع ہے کہ تارک نماز کافر ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب