السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
پانچ سال پہلے میرے چچا میرے والد کے پاس گئے تاکہ وہ میری بہن ’حصہ‘ کا اپنے بیٹے’علی‘ کے لئے رشتہ طلب کریں تو میری بہن سمیت سب نے اس رشتہ کو قبول کر لیا مہر بھی طے ہو گیا دیگر شرطین بھی طے ہو گئیں لیکن میرے چچا نے اس مجلس سے رخصت ہوتے وقت میرے والد سے کہا،’’ابو احمد! اگر آپ کا بیٹا ہماری بیٹی عائشہ سے شادی کرنا چاہے تو ہمیں بھی یہ رشتہ منظور ہو گا‘‘ ان کا مقصد یہی تھا کہ ان کی بیٹی عائشہ سمیت سارے خاندان کو یہ رشتہ منظور ہو گا اور کہا کہ ہمیں اپنی بیٹی کے لئے احمد سے بہتر اور کون مل سکتا ہے؟ یاد رہے کہ ہم نے ان سے یہ رشتہ طلب نہیں کیا تھا یعنی ہم نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم آپ کو اپنی بیٹی کا رشتہ اس شرط پر دیں گے، میرے چچا نے اپنی خوشی سے از خود ہی اس مسئلہ کو شروع کیا تھا میرے والد نے اس سلسلہ میں میری رائے پوچھی کہ کیا میں عائشہ سے شادی کے لئے تیار ہوں تو میں نے بھی اس پر آمادگی کا اظہار کردیا اور اس طرح الحمد اللہ ایک ماہ کے اندر ہم سب کی شادیاں ہو گئیں، میں اور میری بیوی خوش و خرم زندگی بسر کررہے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں تین بچے بھی دیئے ہیں، اس طرح میری بہن اور بہنوئی بھی خوش و مسرت سے زندگی بسر کررہے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی دو بچے دیئے ہیں میرا سوال یہ ہے کہ یہ نکاح صحیح ہے یہ شغار تو نہیں ہے؟ یاد رہے میری بہن کا مہر اور دیگر شروط میری بیوی کے مہر اور شروط کے قریب قریب ہیں صرف چند معمولی اشیاء میں فرق ہے، اس مسئلہ میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر امر واقع اسی طرح ہے، جس طرح سوال میں مذکور ہے تو یہ نکاح شغار نہیں ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں والحمد اللہ کیونکہ شغار یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے سے یہ کہے کہ تم اپنی بیٹی کا رشتہ مجھے دے دو میں اپنی بیٹی کا رشتہ تمہیں دے دیتا ہوں یا یہ کہے کہ اپنی بہن تم میرے نکاح میں دے دو میں اپنی بہن تمہارے نکاح میں دے دیتا ہوں یا اس طرح کے دیگر الفاظ کہے جائیں لیکن نکاح کی جو صورت آپ نے سوال میں ذکر کی ہے اس میں چونکہ کوئی ایسی شرط نہیں ہے لہٰذا یہ شغار نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب