سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(184) کیا بے ہوش اور دیوانے پر شرعی احکام لا گو ہوتے ہیں؟

  • 974
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1542

سوال

(184) کیا بے ہوش اور دیوانے پر شرعی احکام لا گو ہوتے ہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جس شخص کی یادداشت ختم ہو جائے اور جو بے ہوش ہو، کیا ان کے لیے بھی شرعی احکام لازم ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان پر عبادات کو اسی صورت میں واجب قرار دیا ہے جب وہ وجوب کا اہل ہو یعنی وہ صاحب عقل ہو اور اسے اشیاء کا ادراک ہو، لہٰذا جو شخص بے عقل ہو اس کے لیے احکام شریعت لازم نہیں ہیں۔ اسی طرح وہ چھوٹا بچہ جسے برے بھلے کی تمیز نہ ہو اس پر بھی لازم نہیں ہے بلکہ وہ بچہ جو ابھی بالغ نہ ہو وہ بھی مکلف نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت ہے، اسی طرح وہ کم عقل جو ابھی حد جنون کو نہ پہنچا ہو اور بڑی عمر کا وہ شخص جس کی یادداشت ختم ہوگئی ہو ان پر بھی نہ نماز واجب ہے اور نہ روزہ کیونکہ جس شخص کی یادداشت ختم ہوگئی ہو وہ اس بچے کی طرح ہے جسے اچھی بری بات میں تمیز نہ ہو، اس سے احکام شریعت کی پابندی ساقط ہوگی اس پر احکامات شرعیہ لازم نہ ہوں گی۔

جہاں تک مالی واجبات کا تعلق ہے تو وہ اس کے مال میں واجب ہوں گے، خواہ اس کی یادداشت ختم ہوگئی ہو، مثلاً: زکوٰۃ اس کے مال میں واجب ہوگی۔ اس کے ولی کے لیے واجب ہوگا کہ وہ اس کے مال میں سے زکوٰۃ ادا کرے کیونکہ وجوب زکوٰۃ کا تعلق مال سے ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿خُذ مِن أَمولِهِم صَدَقَةً تُطَهِّرُهُم وَتُزَكّيهِم...﴿١٠٣﴾... سورة التوبة

’’ان کے مال میں سے زکوٰۃ قبول کر لو کہ اس سے تم ان کو (ظاہر میں بھی) پاک اور (باطن میں بھی) پاکیزہ کرنے رہو گے۔‘‘

تو یہاں یہ فرمایا ہے کہ ﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ﴾ ’’ان کے مال میں سے قبول کر لو‘‘ اور یہ نہیں فرمایا کہ ان سے قبول کر لو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ  کو یمن بھیجتے ہوئے فرمایا تھا:

«فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللّٰهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِی أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَاءِهِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَاءِهِمْ» (صحيح البخاري، الزکاة، باب وجوب الزکاة، ح: ۱۳۹۵ وصحيح مسلم، الايمان، باب الدعاء الی الشهادتين وشرائع الاسلام، ح:۱۹)۔

’’لہٰذا انہیں آگاہ کر دو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں میں صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے دولت مندوں سے لے کر ان کے فقیروں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔‘‘

لہٰذا مالی واجبات اس شخص سے بھی ساقط نہیں ہوتے جس کی یادداشت ختم ہوگئی ہو۔ لیکن بدنی عبادتیں، مثلاً: نماز، طہارت اور روزہ جیسی عبادات اس شخص سے ساقط ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ بے عقل ہے اور جس شخص کی عقل بے ہوشی اور مرض وغیرہ کی وجہ سے زائل ہو جائے، اکثر اہل علم کے قول کے مطابق اس پر نماز واجب نہیں ہے، اس لئے اگر مریض ایک یا دو دن بے ہوش رہے تو اس پر قضا لازم نہیں ہے کیونکہ اس میں عقل نہیں ہے اور اسے سوئے ہوئے انسان کی طرح بھی قرار نہیں دیا جا سکتا، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

« مَنْ نَام عنَ صَلَاةً اَوْ نَسيهافليُصَلِّيَهَا إِذَا ذَکَرَهَا» (صحيح البخاري، المواقيت باب من نسی صلاة فليصل اذا ذکر، ح: ۵۹۷ وصحيح مسلم، المساجد، باب قضاء الصلاة الفائتة، ح: ۶۸۴ (۳۱۵) واللفظ له)

’’جو شخص کوئی نمازمیں سے سویا رہے یا بھول جائے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے جب یاد آئے، اسے پڑھ لے۔‘‘

کیونکہ سوئے ہوئے شخص میں ادراک ہے اگر اسے اگر بیدار کیا جائے تو وہ بیدار ہو سکتا ہے لیکن بے ہوشی میں مبتلا انسان کو اگر بیدار کیا جائے تو وہ بیدار نہیں ہو سکتا، یہ اس صورت میں ہے جب بے ہوشی بغیر سبب کے ہو اور اگر اس کا کوئی سبب ہو، مثلاً: بھنگ وغیرہ کے استعمال کی وجہ سے بے ہوش ہوا ہو تو اسے بے ہوشی میں گزری ہوئی نمازوں کی قضا ادا کرنی ہوگی۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ234

محدث فتویٰ

تبصرے