السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک غریب نوجوان ہوں لیکن بحمداللہ شادی شدہ ہوں جس ملک میں کام کرتا ہوں وہاں کا قانون چند ملازمتوں کے سوا دیگر لوگوں کو بیوی کے ساتھ لانے کی اجازت نہیں دیتا ، میری تنخواہ بھی اچھی ہے، مجھے کرایہ مکان بھی ملتا ہے، میرے پاس ڈگریاں بھی اور ڈپلومے بھی ہیں لیکن مجھے بیوی کو اپنے پاس بلانے کی اجازت نہیں ہے تو اس سلسلے میں دین حنیف کا کیا حکم ہے جبکہ مجھے رختص ایک سال بعد بلکہ چودہ ماہ ملتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شوہر کے غائب رہنے کی مدت کو بعض صحابہؓ نے چار ماہ اور بعض نے چھ ماہ بتایا ہے لیکن یہ مدت بیوی کے شوہر سے واپس آنے کے مطالبہ کے بعد ہے یعنی جب چھ ماہ کی مدت گزر جائے ، بیوی شوہر سے مطالبہ کرے کہ وہ آ جائے اور اس کے لئے آنا ممکن بھی ہو تو اس کے لئے واپس آنا لازم ہے اور اگر نہ آئے تو وہ فسخ نکاح کے لئے معاملہ قاضی کے پاس لے جاسکتی ہے اور اگر بیوی شوہر کو باہر رہنے کی اجازت دے دے خواہ مدت کتنی ہی طویل ہو اور ایک سال یا دو سالوں سے بھی زیادہ ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ شوہر کو واپس بلانا بیوی کا حق ہے اور اگر وہ اپنے حق کو ساقط کر دے تو پھر اسے فسخ نکاح کا حق نہیں ہے بشرطیکہ وہ شوہر کی عدم موجودگی پر راضی ہو اور وہ اسے کھانے ، پینے ، پہننے اور دیگر ضروریات کے لئے خرچہ بھیجتا رہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب