السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے سنا ہے کہ بہت سے شادی شدہ لوگوں کی یہ عادت ہے کہ وہ جب اپنی بیوی سے غائب ہوں یا سفر کا ارادہ کریں تو وہ سفر کرتے یا سفر سے واپس آتے وقت اپنی بیوی کی طرف نہیں دیکھتے، کیا اس کی شریعت میں کوئی اصل ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ بہت سے شوہر سفر پر جاتے ہوئے یا سفر سے واپس آتے وقت اپنی بیوی کی طرف نہیں دیکھتے تو یہ بات بے اصل ہے ، شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ لہٰذا اس عادت کی پابندی کرنا اور اسے دینی حکم سمجھنا ان بدعات میں سے جنہیں ترک کر دینا چاہیے ہاں البتہ انسان اگر لمبے سفر سے واپس آئے تو اسے اپنے اہل خانہ کے پاس رات کو اچانک نہیں آنا چاہیے تاکہ وہ کوئی ایسی بات نہ دیکھے جو اسے نا پسند ہو اور جس سے وہ نفرت کرتا ہو بلکہ اسے مہلت دے کر آنا چاہیے تاکہ عورت کو اس کی آمد کا علم ہو اور وہ اس کے لئے تیار ہو جائے، اس کا تعلق حسن معاشرت اور ازوداجی زندگی کے ان آداب میں سے ہے جنہیں باقی رکھنا اور جن کی حفاظت کرنا چاہیے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے منع فرمایا کہ مرد اپنے اہل خانہ کے پاس رات کو اچانک آئے چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:
((إذا أطال أحدكم الغية فلا يطرق أهله ليلاً )) ( صحيح البخاري)
’’جب تم میں سے کوئی شخص طویل عرصہ تک غائب رہے تو وہ اپنے اہل (بیوی) کے پاس رات کو اچانک نہ آئے۔‘‘
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((إذا دخلت ليلاً فلا تدخل على أهلك حتى تستحد المغيبة وتمتشط الشعثة )) ( صحيح البخاري )
’’جب تم رات کو آئو تو اپنے اہل(بیوی) کے پاس نہ آئو حتیٰ کہ وہ عورت جس کا شوہر غائب ہو وہ زیر ناف بال صال کر لے اور بکھرے بالوں والی عورت کنگھی کر لے۔‘‘
تو اس حدیث میں گویا آنحضرتﷺ نے واضح فرمایا ہے کہ طویل سفر سے واپس آنے والا اپنی بیوی کے پاس اچانک نہ آئے تاکہ اسے تیاری اور آرائش و زیبائش کا وقت دیا جائے اور شوہر کوئی ایسی بات محسوس نہ کرے جو اسے نا پسند اور اس کے نزدیک قابل نفرت ہو لہٰذا گھر واپس آنے سے پہلے اگر وہ خط لکھ کر یا فون کے ذریعے سفر سے واپسی کے وقت کے بارے میں مطلع کر دے تو پھر جس لمحے وہ چاہے واپس آ سکتا ہے اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ اچانک بغیر اطلاع کے آیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب