سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(251) بانجھ بنانا اور قطع نسل کرنا

  • 9710
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1274

سوال

(251) بانجھ بنانا اور قطع نسل کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علماء اسلام وفقہاء دین، تحدید نسل ، انسانوں کو بانجھ بنانے اور اس مقصد کی خاطر برضا ور رغبت یا زبردستی ان کی تناسل ور جولیت کی رگوں کے کاٹ دینے کے مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کیا یہ اللہ تعالیٰ کے دین میں جائز ہے؟

کتاب و سنت کی روشنی میں شافی جواب عطا فرمائیں، ہندوستان کے علماء کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے بعض نے اسے حلال قرار دیا ہے اور بعض نے حرام اور بعض نے سکوت اختیار کیا ہے جبکہ ہم مسلمانان ہند اس مسئلہ میں حیران و پریشان ہیں اور نہیں جانتے کیا یہ دین میں جائز ہے یا ناجائز؟ کیا تحدید نسل کے اس عمل کو مسلمانوں کے دین و ملت میں مداخلت قرار دیا جائے گا؟ کیا کسی بھی ایسی حکومت کے لئے جو مذہبی آزدای اور دینی امور میں عدم مداخلت کی دعوے دار ہو، یہ جائز ہے کہ وہ راہ چلتے ہوئے مسلمان مسافروں کی نس بندی کر دے خواہ وہ اس پر خوش ہوں یا نا خوش ، اس مسئلہ کو واضح طور پر بیان فرما دیں ، اللہ تعالیٰ آپ کو بے پایاں اجروثواب سے نوازے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دین اسلام سے بدیہی طور پر یہ بات معلوم ہے کہ سوال میں مذکور یہ عمل منکر اور قوموں پر بلکہ ساری انسانیت پر ظلم کے مترادف ہے لہٰذا یہ کسی بھی اسلامی یا غیر اسلامی حکومت کے لئے جائز نہیں ہے کیونکہ مردوں اور عورتوں کو بانجھ بنانا ظلم عظیم ہے او اس کے نتیجے میں بے پناہ فساد برپا ہوتا اور انتہائی خطرناک نتائج ظاہر ہوتے ہیں، یہ عمل کتاب و سنت کے ادلہ شرعیہ کے بھی خلاف ہے  اور اس فطرت کے بھی خلاف ہے جس پر اللہ نے اپنے بندوں کو پیدا فرمایا ہے، اور انسانی حقوق Human Rights کے ان بلند و بالا دعوئوں کے بھی خلاف ہے جو انہی ممالک، تنظیموں اور ان کے دفاتر سے نشر کئے جاتے ہیں جو نسل انسانی کے قتل کے اس پروگرام کا پرچار اور بسا اوقات جبراً طلاق کرتے رہتے ہیں۔ اور اگر اس عمل کا تعلق مسلمانوں سے ہو تو اس میں بہت سے نقصانات ہیں جن میں سے سرفہرست دشمن کے مقابلہ میں ان کی تعداد  کو کم کرنے کی سازش ہے او یہ بات رسول اللہﷺ کی ان احادیث صحیحہ کے خلاف ہے جن میں آپ نے کثرت نسل کے اسباب کو اختیار کرنے کی رہنمائی فرمائی ہے ا ور آپ نے فرمایا ہے کہ آپ اپنی امت کی کثرت کی وجہ سے دیگر امتوں پر قیامت کے دن فخر فرمائیں گے اس میں خرابی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس عمل کے ذریعے در حقیقت ان لوگوں کی تعداد کو کم کرنا مقصود ہے جو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرتے، اس کی شریعت کی دعوت دیتے اور زمین میں عدل و انصاف قائم کرنے میں تعاون کرتے ہیں مختصر یہ کہ نس بندی کا مذکورہ سلسلہ انتہائی بدترین قسم کا ظلم ہے اور سورۃ الفرقان میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمَن يَظلِم مِنكُم نُذِقهُ عَذابًا كَبيرً‌ا ﴿١٩﴾... سورة الفرقان

’’اور جو شخص تم میں سے ظلم کرے گا ہم اس کو بہت بڑے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔‘‘

اور نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:

((اتقوا الظلم فان الظلم ظلمات يوم القيامة )) (صحيح مسلم )

’’ظلم سے بچو کیونکہ ظلم روز قیامت بہت سی تاریکیوں کا سبب ہو گا۔‘‘

کتاب و سنت کے ایسے بے شمار دلائل ہیں، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نس بندی حرام اور انتہائی بدترین قسم کا ظلم ہے ہم دعا کرتے ہیں کہ جو شخص اس منکر کام کو کرے، اللہ تعالیٰ اسے حق و صواب کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت فرمائے اور ہر جگہ کے مسلمانوں کو اس بات کی توفیق دے جس میں ان کی عزت، حق پراستقامت اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے مخالفین کے مقابلے میں ان کی نصرت و اعانت ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 216

محدث فتویٰ

تبصرے