سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(246) شادیوں میں بعض منکر باتیں

  • 9701
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1192

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین آج کل موسم گرما کی تفطیلات کے آغاز کے ساتھ ہی شادیاں شروع ہو گئی ہیں اور ہوٹلوں‘ گھروں یا شادی گھروں میں جو شادیاں ہو رہی ہیں ان میں بہت سی غلط باتیں بھی عام رواج پا گئی ہیں جن میں سے بدترین باتیں لاوئڈ سپیکر پر عورتوں کے گانے‘ ویڈیو کے ذریعہ تصویر کشی اور اس سے بھی بڑھ کر شادی کرنے والے مرد کا تمام عورتوں کے سامنے اپنی بیوی کو بوسہ دینا ہے‘ آہ! حیا اور اللہ کا خوف کہاں گیا؟ اور ان مواقع پر جب کچھ غیور مسلمان نصیحت کرتے ہیں تو وہ جواب یہ دیتے ہیں کہ فلاں شیخ نے طبلہ کے جواز کا فتویٰ دیا ہے اگر یہ بات صحیح ہے تو کیا طبلہ بجانے کیلئے کچھ ضوابط اور حدود نہیں ہیں جن کی یہ شوریدہ لوگ پابندی کریں؟ امید ہے آپ مسلمانوں کیلئے حق بات کو واضح فرما دیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔ آپ کے علم کے ساتھ نفع پہنچائے اور اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق بخشے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شادی کے دنوں میں دف بجانے کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ شریعت میں اس کی اجازت ہے لیکن اس کے لئے حسب ذیل شرطیں ہیں:

(۱) اس مقصد کی خاطر دف ہی استعمال ہو‘ جسے بعض لوگ ’’طار‘‘ کے نام سے بوی موسوم کرتے ہیں اور یہ ایک طرف سے بند ہوتی ہے اور اگر یہ

 دونوں طر فسے بند ہو تو پھر اس کا نام ڈھولکی ہوگا اور ڈھولکی کا استعمال جائز نہیں کیونکہ وہ آلات موسیقی میں سے ہے اور تمام آلات موسیقی حرام ہیں سوائے اس کے جس کی حلت کی کوئی دلیل موجود ہو اور وہ صرف دف ہی ہے جسے شادی کے دنوں میں بجانا جائز ہے۔

(۲) دف کے ساتھ کوئی حرام چیز شامل نہ ہو مثلاً ایسے گانے نہ گائے جائیں جو فحش ہوں اور جنسی جذبات کو بھڑکانے والے ہوں کیونکہ اس طرح کے گانے ہر صورت میں حرام ہیں خواہ دف ہو یا نہ ہو اور خواہ شادی کے دن ہوں یا دوسرے دن۔

(۳) اس سے کوئی فتنہ رونما نہ ہو یعنی خوبصورت آوازیں سن کر مردوں کے فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو کیونکہ اگر اس سے فتنہ رونما ہوتا ہو تو پھر بھی اس کا استعمال ممنوع ہوگا۔ مثلاً لائوڈ سپیکر کے استعمال کی صورت میں بلند آوازوں سے پڑوسیوں وغیرہ کو تکلیف بھی ہوتی ہے نیز یہ آوازیں فتنہ بھی ہوتی ہیں۔ نبی اکرمﷺ نے تو نمازیوں کو بلند آواز سے قراء ت کرنے سے منع فرمایا تاکہ دیگر نمازیوں کی نماز میں خلل پیدا نہ ہو تو اس سے اندازہ لگایے کہ دف اور گانے کی بلند آوازوں کو کس طرح جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟

تصویروں کی قباحت میں بھی کسی عقل مند کو کوئی شک نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی عقل مند اسے برضا ورغبت تسلیم ہی کر سکتا ہے۔ کسی مرد مومن کے اسے قبول کرنے کا تو سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اس کی مائوں‘ بیٹیوں‘ بہنوں‘ بیویوں اور دیگر خواتین کی تصویریں بنائی جائیں اور ہر کسی کو دکھائی جائیں یا انہیں کھلونے بنا دیا جائے کہ ہر فاسق و فاجر انہیں دیکھ کر لطف حاصل کرے۔

اور اس سے بڑھ کر بدترین بات یہ ہے کہ ویڈیو کے ذریعے تصویریں بنائی جائیں کیونکہ ان تصویروں میں اس طرح منظر نگاری کی گئی ہوتی ہے کہ تصویروں والے زندہ معلوم ہوتے ہیں کہ انہیں چلتے پھرتے ہوئے دیکھا اور باتیں کرتے ہوئے سناجا سکتا ہے اور یہ ایک ایسا منکر امرہے کہ اسے ہر عقل سلیم اور دین مستقیم والا انسان براہی محسوس کرے گا اور کوئی بھی باحیا اور ایمان دار انسان اسے جائز قرار نہیں دے سکتا۔

عورتوں کا رقص کرنا بھی انتہائی بدترین بات ہے کیونکہ اس کی وجہ سے عورتوں کے درمیان جو واقعات رونما ہوئے ہیں‘ ان کے سبب اس کے جواز کا قطعاً کوئی فتویٰ نہیں دیا جا سکتا اور اگر رقص مردوں کا ہو تو یہ اور بھی بدتر ہے کیونکہ اس میں مردوں کی عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے اور اس میں جو قیامت ہے وہ مخفی نہیں اور اگر مردوں اور عورتوں کا مخلوط رقص ہو جیسا کہ بعض بے وقوف لوگ کرتے ہیں تو یہ تو بے حد و حساب قبیح (برا) ہے کیونکہ مردوں اور عورتوں کا اختلاط ایک بہت بڑا فتنہ ہے‘ خصوصاً جب کہ یہ اختلاط نکاح و شادی کی جذبات انگیز تقریب میں ہو۔

سائل نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ شوہر عورتوں کے مجمع میں آکر اپنی بیوی کو سب عورتوں کے سامنے بوسہ دیتا ہے تو یہ بات بہت ہی تعجب انگیز ہے کہ وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے شادی کی نعمت سے نوازا ہے‘ وہ یہ کام سب عورتوں کے سامنے کرے جو شریعت‘ عقل اور مروت کے اعتبار سے بے حد منکر ہے‘ اسے یہ بتا زیب کیسے دیتی ہے کہ وہ تمام عورتوں کے سامنے شادی کی نشاط انگیز تقریب میں اس طرح کا کام کرے اور پھر تعجب یہ ہے کہ عورت کے وارث اسے اس بات کی کیسے اجازت دیتے ہیں؟ کیا وہ اس بات سے ڈرتے نہیں کہ یہ آدمی عورتوں کے اس جمگھٹے میں کسی ایسی عورت کو دیکھے جو اس کی بیوی سے زیادہ حسین و جمیل ہو جس کی وجہ سے یہ نقد دل ہار بیٹھے‘ اس کی بیوی اس کی نظروں سے گر جائے اور اس کے دل میں اس حسین و جمیل عورت کا سودا سما جائے اور اس کی ازواجی زندگی ناخوشگوار ہو کر رہ جائے؟

آخر میں اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو یہ نصیحت کروں گا کہ وہ ان تمام برے اعمال سے باز رہیں‘ شادی کی نعمت اور دیگر تمام نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائیں‘ سلف صالحین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سنت کو مشعل راہ بنائیں اور ان لوگوں کی پیروی نہ کریں جو خود بھی گمراہ ہیں‘ دوسرے لوگوں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں  اور سیدھے راستہ سے بھٹک گئے ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور تمام مسلمانوں کو ان کاموں کی توفیق عطا فرمائے جنہیں وہ پسند کرتا ہے اور جن سے وہ خوش ہوتا ہے اور اپنے ذکر‘ شکر اور حسن عبادت پر ہماری مدد فرمائے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 210

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ