السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب انسان کی ہوا خارج ہو تو کیا اس سے استنجا کرنا واجب ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دبر سے ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((لَا یَنْصَرِفْ حَتَّی یَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ یَجِدَ رِیْحًا)) (صحیح البخاري، الوضوء باب لا یتوضا من الشک حتی یتیقن، ح: ۱۳۷ وصحیح مسلم، الحیض، باب الدلیل علی ان من تیقن الطہارة ثم شک فی الحدث فلہ ان یصلی بطہارته تلک، ح: ۳۶۱۔)
’’اس وقت تک نماز نہ چھوڑے جب تک کہ آواز نہ سن لے یا بدبو نہ محسوس کر لے۔‘‘
لیکن اس بنیادپراستنجا یعنی شرم گاہ کو دھونا واجب نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں کوئی ایسی چیز خارج نہیں ہوتی، جسے دھونا لازم ہو، البتہ ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جائے گا، لہٰذا انسان کے لیے وضو کرنا ہی کافی ہوگا یعنی کلی اور ناک صاف کرتے ہوئے منہ اور کہنیوں تک دونوں ہاتھوں کو دھو لے، سر اور کانوں کا مسح کرے اور ٹخنوں تک دونوں پاؤں دھولے مرادیہ ہے کہ پورا وضو کرے۔
میں یہاں ایک مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں جو بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں اور وہ یہ کہ بعض لوگوں کی عادت ہے کہ جب نماز کے وقت سے پہلے بول و براز کر کے استنجا کر لیتے ہیں اس کے بعد پھروہ جب نماز کے وقت وضو کرتے ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت دوبارہ استنجا یعنی شرم گاہ کو دھونا ضروری ہے حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے اس لئے کہ انسان جب قضائے حاجت کے بعد شرم گاہ کو دھو لے تو اس سے وہ مقام پاک ہوگیا اور جب وہ پاک ہوگیا تو پھر اسے دوبارہ دھونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اپنی معروف شرائط کے ساتھ استنجا یا ڈھیلے استعمال کرنے سے مقصود مقام کو پاک کرنا ہے لہٰذا جب وہ پاک ہو جائے تو دوبارہ اس وقت تک ناپاک نہیں ہوتا جب تک اس سے دوبارہ کوئی چیز خارج نہ ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب