سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(239) سودی کاروبار کرنے والے باپ کے مال سے شادی کرنا

  • 9694
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1187

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

الحمدللہ‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت سے سرفراز فرما رکھا ہے اور میں ان شاء اللہ عنقریب شادی بھی کرنا چاہتا ہوں لیکن مشکل یہ ہے کہ میرے والد صاحب‘ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے‘ سودی کاروبار کرتے ہیں اور وہ اس شادی میں میرے ساتھ مالی تعاون بھی کریں گے جس کی وجہ سے میں بہت پریشان ہوں کہ میرے پاس از خود مہر ادا کرنے کی استطاعت نہیں ہے اور اگر میں اپنے والد کی اس حرام کمائی کے تعاون کو قبول نہ کروں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ میں کئی سالوں تک شادی نہ کر سکوں گا لہٰذا رہنمائی فرمائیں کہ میں کیا کروں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میں چاہتا ہوں کہ سائل اور قارئین کرام کو پہلے ایک مفید قاعدہ بتا دوں کہ ہر وہ چیز جو کمائی کی وجہ سے حرام قرار دی گئی ہے‘ وہ صرف کمانے والے کیلئے حرام ہے اور ہر وہ چیز جو خود حرام ہے وہ کمانے والے کیلئے بھی اور دیگر لوگوں کیلئے بھی حرام ہے مثلاً اگر کوئی شخص کسی دوسرے کا مال لے لے اور وہ اسے کسی دوسرے کو بیع یا ہبہ کی صورت میں دینا چاہئے تو ہم کہیں گے کہ یہ حرام ہے کیونکہ یہ مال بعینہ حرام ہے۔

لیکن جو کمائی حرام ہو مثلاً یہ کہ وہ سود یا دھوکے سے کی گئی ہو تو یہ صرف کمانے والے کیلئے حرام ہے جو اسے حق کے ساتھ لے لے اس کیلئے یہ حرام نہیں ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام یہودیوں کا ہدیہ اور دعوت قبول فرما لیا کرتے تھے۔ ان کا کھانا (طعام) تناول فرما لیا کرتے تھے‘ ان سے اشیاء بھی خرید لیا کرتے تھے اور سبھی جانتے ہیں کہ یہودی سودی لین دین کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان کے بارے میں ذکر فرمایا ہے۔

اس قاعدہ کی بنا پر میں سائل سے یہ کہوں گا کہ آپ کو شادی کیلئے جس قدر بھی ضرورت ہے‘ اپنے باپ کے مال سے لے لو یہ آپ کیلئے حلال ہے‘ حرام نہیں۔ سودی کاروبار کا گناہ آپ کے باپ کو ہوگا‘ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کے باپ کو ہدایت‘ توبہ اور سودی کاروبار ترک کر دینے کی توفیق عطا فرمائے‘ آپ کے باپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کریم میں فرمایا ہے:

﴿الَّذينَ يَأكُلونَ الرِّ‌بو‌ٰا۟ لا يَقومونَ إِلّا كَما يَقومُ الَّذى يَتَخَبَّطُهُ الشَّيطـٰنُ مِنَ المَسِّ...٢٧٥﴾... سورة البقرة

’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو۔‘‘

اس آیت کا کیا معنی سامنے آتا ہے؟ مفسرین نے اس آیت کے معنی یہ بیان فرمائے ہیں۔ بلاشبہ جو لوگ سود کھاتے ہیں یہ جب قیامت کے دن اپنی قبروں سے اٹھائے جائیں گے تو اس طرح حواس باختہ اٹھیں گے جس طرح وہ شخص اٹھتا ہے جسے شیطان نے لپٹ کر جون کی وجہ سے دیوانہ بنا دیا ہو‘ تو اس سے اندازہ فرمائیں کہ روز قیامت تمام لوگوں کے سامنے ذلیل و خوار کرنے کیلئے ان کی یہ سزا کس قدر سنگین ہوگی۔

بعض علماء متاخرین نے بیان کیا ہے کہ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ سودی معاملہ مجنونوں کی طرح کرتے ہیں کہ سود نے ان کی عقل اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کر دیا ہوتا ہے کہ ہر چیز سے بے نیاز ہو کر ان کی دلچسپی کا مرکز و محور سود ہی ہوتا ہے۔ آیت میں چونکہ اس معنی کا بھی احتمال ہے تو درحقیت یہ معنی بھی وہی ہے جو پہلا معنی ہے جس پرجمہور علماء اور مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس بے پناہ حرص اور لالچ کی وجہ سے انہیں دنیا میں بھی یہ سزا ملتی ہے اور آخرت میں بھی اس سزا سے دوچار ہوں گے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص203

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ