السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مہر میں مبالغہ آرائی ایک معاشرتی مسئلہ ہے لہٰذا اس کا کوئی نہ کوئی حل ہونا چاہئے‘ آپ کی رائے میں اس سنگین مسئلہ کا کیا حل ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بے شک مہر میں مبالغہ آرائی ایک سنگین معاشرتی مسئلہ ہے۔ حکومت‘ علماء اور معززین کو باہمی تعاون کے ذریعے اس مسئلے کا حل ڈھونڈنا چاہئی اس کیلئے لوگوں کو بھی یہ نصیحت کی جائے کہ دو مہر میں تخفیف سے کام لیں‘ تخفیف کے فوائد بھی بیان کریں اور خود اپنا عملی نمونہ بھی پیش کریں تاکہ دوسرے لوگ بھی امرائ‘ علماء اور معززین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس خرابی کو دور کر سکیں۔ حضرت عائشہؓ سے مروی حدیث سے یہ ثابت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی کو بھی پانچ سو درہم سے زیادہ مہر نہیں دیا تھا اور آپ کی ذات گرامی اپنے اقوال و اعمال میں ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا ہے:
((خير الصداق أيسره )) ( سنن أبي داؤد)
’’بہترین مہر وہ ہے جو کم ہو۔‘‘
آپﷺ نے یہ بھی فرمایا:
((أبركهن أيسرهن مهورا)) ( المغني عن حمل الأسفار للعراقي)
’’زیادہ بابرکت عورتیں وہ ہیں‘ جن کے مہر کم ہوں۔‘‘
ایک صحابی کے پاس مہر ادا کرنے کیلئے جب کوئی مال نہ تھا تو آپﷺ نے اس کی شادی ایک عورت سے اس مہر پر کردی کہ اسے قرآن مجید کی جس قدر سورتیں یاد ہیں‘ وہ اپنی بیوی کو بھی یاد کرا دے۔
نبیﷺ کی احادیث مبارکہ اور سلف صالحین کے آثار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ مہر میں تسامح سے کام لینا چاہئے اور ولیمہ کی عورتوں میں بھی تکلف سے کام نہیں لینا چاہئے۔ بے شک ان امور میں سبقت کا مظاہرہ نوجوانوں کی جلد شادی کا سبب بنے گا اور اس طرح بہت سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو عفت و پاک دامنی کی زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم ہوگا اور معاشرے کو شیطان کی چالوں اور دسیسہ کاریوں سے محفوظ رکھا جا سکے گا۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:
((يا معشر الشباب ، من استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر ، وأحصن للفرج ، ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء)) (صحيح البخاري )
’’اے گروہ نوجوانان! تم میں سے جس کو شادی کرنے کی استطاعت ہو تو وہ شادی کر لے کہ اس سے نگاہیں نیچی رہیں گی وار شرمگاہ کی حفاظت ہوگی اور جسے استطاعت نہ ہو تو وہ روزہ رکھے‘ روزہ اس کی جنسی خواہش کو ختم کر دے گا۔‘‘
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب