السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے دوسرے کو اپنی بیٹی کا رشتہ دیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ یہ حرامی ہے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر وہ مسلمان ہے تو نکاح صحیح ہے کیونکہ وہ اپنی ماں اور اس کے ساتھ بدکاری کرنے والے کے گناہ میں شریک نہیں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿أَلّا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزرَ أُخرىٰ ﴿٣٨﴾... سورة النجم
’’ کوئی شخ دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘
اگر یہ اللہ تعالیٰ ک دین پر قائم رہے اور پسندیدہ اخلاق کو اختیار کرے تو ان دونوں کے عمل کی وجہ سے اس پر وئی عار نہیں ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ إِنّا خَلَقنـٰكُم مِن ذَكَرٍ وَأُنثىٰ وَجَعَلنـٰكُم شُعوبًا وَقَبائِلَ لِتَعارَفوا ۚ إِنَّ أَكرَمَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقىٰكُم ۚ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ خَبيرٌ ﴿١٣﴾... سورة الحجرات
’’ لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے برادریاں اور خاندان بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو شناخت کر سکو اور اللہ کے نزدیک تم سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے بے شک اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور سب سے خبردار ہے۔‘‘
اور نبی اکرمﷺ سے جب یہ پوچھا گیا کہ سب سے معزز کون ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا’’ جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے ‘‘ نبی علیہ الصلوۃ و السلام نے یہ بھی فرمایا ہے۔
((من بطأ به عمله لم يسرع به نسبه )) ( صحيحح مسلم )
’’ جس شخص کو اس کے عمل نے پیچھے رکھا تو اس کا نسب اسے آگے نہ لے جا سکے گا۔‘‘
نیز آپﷺ نے یہ بھی فرمایا:
((إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه إلاتفعلوا تكن فتنة في الارض وفساد عريض )) ( جامع الترمذي)
’’ جب تم سے کوئی ایسا شخص رشتہ طلب کرے جس کا دین و اخلاق تمہیں پسند ہو تو اسے رشتہ دے دو ورنہ زمین میں بہت بڑا فتنہ و فساد رونما ہوجائے گا۔‘‘
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب