السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک مرد نے عورت کو منگنی کا پیغام تو بھیجا لیکن نکاح نہیں کیا اور اس کے اور عورت کے والد کے درمیان چونکہ تعلقات کشیدہ ہو گئے اس لئے اس نے کہہ ظدیا کہ ’’یہ عورت میرے لئے میری ماں بہن کی طرح حرام ہے‘‘ پھر بعد میں اس کے اور اس عورت کے والد کے تعلقات خوشگوار ہو گئے اور اس نے مہر معین کے ساتھ عورت کے ساتھ نکاح کر لیا‘‘ عورت نے بھی اس نکاح کو برضاو رغبت قبول کر لیا۔ سوال یہ ہے کہ قبل از عقد اس عورت کو حرام قرار دینے کی وجہ سے مرد کے لئے کوئی کفارہ وغیرہ لازم ہے اور اگر ہے تو وہ کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس تحریم کا عقد نکاح پر کوئی اثر نہیں ہو گا کیونکہ اس کا تعلق بل از عقد نکاح سے ہے اس صورت میں کفارہ ظہار بھی لازم نہیں کیونکہ مرد نے منگیتر کو اپنی بیوی بننے سے پہلے حرام قرار دیا ہے ہاں البتہ اس صورت میں قسم کا کفارہ لازم ہو گا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تُحَرِّموا طَيِّبـٰتِ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكُم وَلا تَعتَدوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ المُعتَدينَ ﴿٨٧﴾ وَكُلوا مِمّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلـٰلًا طَيِّبًا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذى أَنتُم بِهِ مُؤمِنونَ ﴿٨٨﴾ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغوِ فى أَيمـٰنِكُم وَلـٰكِن يُؤاخِذُكُم بِما عَقَّدتُمُ الأَيمـٰنَ ۖ فَكَفّـٰرَتُهُ إِطعامُ عَشَرَةِ مَسـٰكينَ مِن أَوسَطِ ما تُطعِمونَ أَهليكُم أَو كِسوَتُهُم أَو تَحريرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَن لَم يَجِد فَصِيامُ ثَلـٰثَةِ أَيّامٍ ۚ ذٰلِكَ كَفّـٰرَةُ أَيمـٰنِكُم إِذا حَلَفتُم ۚ وَاحفَظوا أَيمـٰنَكُم...٨٩﴾... سورة المائدة
’’ مومنو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں ان کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ یقیناً اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا اور جو حلال طیب روزی اللہ نے تم کو دی ہے اس سے کھائو اور اللہ سے جس پر ایمان رکھتے ہو، ڈرتے رہو، اللہ تمہاری بے ارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا لیک پختہ قسموں پر (جن کے خلاف کرو گے) مواخذہ کرے گا تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل عیال کو کھلاتے ہو یا ان دس محتاجوں کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا اور جس کو یہ میسر نہ ہو تو وہ تین روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو(اور اسے توڑ دو) اور تمہیں چاہیے کہ ان قسموں کی حفاظت کرو۔‘‘
اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ ۖ تَبتَغى مَرضاتَ أَزوٰجِكَ ۚ وَاللَّهُ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿١﴾ قَد فَرَضَ اللَّهُ لَكُم تَحِلَّةَ أَيمـٰنِكُم ۚ وَاللَّهُ مَولىٰكُم ۖ وَهُوَ العَليمُ الحَكيمُ٢﴾... سورة التحريم
’’ اے نبیﷺ! جو چیز اللہ نے آپ کے لئے جائز کی ہے تم اس کو حرام کیوں کرتے ہو، کیا (اس سے) اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے اور اللہ نے تمہارے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ہے اور اللہ ہی تمہارا کار ساز ہے اور وہ دانا(اور )حکمت والا ہے۔‘‘
لہٰذا جو شخص اس طرح کسی چیز کو حرام قرار دے تو اسے چاہیے کہ وہ دس مسکینوں کو اوسط درمیانے درجے کا کھانا کھلائے، ان میں سے ہر مسکین کو نصف صاع گندم یا کھجور یا چاول وغیرہ دے دے یا دس مکینوں کو کپڑے دے ایک گردن کو آزاد کر دے اور جس کو یہ میسر نہ ہو تو وہ مسلسل تین دن کے روزے رکھے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب