السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
انسان خود تو شادی کرتا ہی ہے لیکن کیا اس کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ وہ شادی کے لئے کسی اور شخص کو اپنا وکیل مقرر کرے؟ کیا وکیل کو کوئی مخصوص رشتہ بتانا ضروری ہے؟ اگر یہ جائز ہے تو شادی کے لئے وکالت کی کیا شرطیں ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہاں انسان کے لئے یہ جائز ہے کہ کسی ایسے شخص کو وکیل مقرر کرے جو اس کے لئے عقد نکاح کو قبول کرے اور کہے کہ میں نے فلاں شخص کو اپنا وکیل مقرر کیا ہے تاکہ فلاں عورت سے میرے نکاح کو وہ قبول کر لے اور اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس عورت کا تعین بھی کرے جس سے وہ شادی کرنا چاہتا ہے مثلاً وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے تجھے وکیل مقرر کیا ہے تاکہ تو میرے لئے بیوی تلاش کرے اور پھر اس سے میرا عقد کر دے کیونکہ اس صورت میں جہالت اورغرر( دھوکہ) ہے، ہو سکتا ہے کہ وکیل کے انتخاب کے بارے میں اسے ندامت ہو، بسا اوقات یہ صورت میاں بیوی کی علیحدگی پر بھی منتج ہو سکتی ہے کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر وہ عورت جو کیل کو اچھی لگے وہ موکل کو بھی اچھی لگے لہٰذا اس عورت کا تعین ضروری ہے، جس سے عقد نکاح کے بارے میں وکیل مقرر کیا ہو۔ اسی طرح عورت کے ولی کے لئے بھی یہ جائز ہے کہ وہ اپنی طرف سے کسی کو وکیل مقرر کر ے اور جواس کی طرف سے اس کی زیر سرپرستی عورت، جس عورت کا وہ ولی ہے کا فلاں شخص سے نکاح کر دے اور اس صورت میں بھی ضروری ہے کہ اس شخص کا باقاعدہ تعین کرے جس سے اس عورت کا نکاح کرنا مقصود ہو، ولی کو اور عورت کو اس شخص کے بارے میں علم ہو اور وہ دونوں کو پسند بھی ہو۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عقد نکاح میں وکالت جائز ہے خواہ یہ وکالت شوہر کی طرف سے ہو کہ وہ کسی شخص کو اپنا وکیل مقرر کردے جو اس کی طرف سے فلاں عورت سے اس کے عقد نکاح کو قبول کرے یا وکالت بیوی کے ولی کی طرف سے ہو کہ وہ کسی ایسے شخص کو اپنا وکیل مقرر کر دے جو اس کی زیر ولایت عورت کا فلاں شخص سے نکاح کر دے۔
وکالت کی شرط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ وکیل ایسا شخص ہونا چاہیے جس کی عقد میں وکالت جائز ہو مثلاً اگر اس نے کسی عورت کو وکیل مقرر کردیا ہو تو یہ جائز نہ ہو گا کیونکہ عورت تو اپنا عقد نکاح خود نہیں کر سکتی کسی دوسرے کا کیسے کر سکتی ہے ۔ ہاں! البتہ اگر کسی عاقل(بالغ) مرد کو وکیل مقرر کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب