سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(190) رضاعت سے کیا حرام ہے؟

  • 9645
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1283

سوال

(190) رضاعت سے کیا حرام ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دو عورتوں میں سے ایک کا بیٹا ہے اور دوسری کی بیٹی اور انہوں نے ایک دوسرے کے بچے کو دودھ پلایا ہے تو سوال یہ ہے کہ ان دودھ پینے والوں کے بہن بھائیوں میں سے کس کے لئے دوسرے سے شادی کرنا حلال ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی عورت کسی بچے کو پانچ معلوم یا اس سے بھی زیادہ رضعات دو سال کی مدت کے اندر پلا دے تو دودھ پینے والا بچہ اس کا اور اس کے شوہر کا بیٹا بن جاتا ہے جو کہ دودھ لانے کا باعث بنا ہے۔ اور عورت کی اس شوہر سے ساری اولاد اور دوسرے شوہر سے اولاد بھی اس کے بھائی بن جاتے ہیں اسی طرح اس شوہر کی ساری اولاد خواہ وہ اس کی اس دودھ پلانے والی بیوی کے بطن سے ہو یا کسی دوسری کے بطن سے وہ بھی اس دودھ پینے والے بچے کے بھائی بن جاتے ہیں، اسی طرح اس عورت کے بھائی اس بچے کے ماموں، شوہر کے بھائی اس بچے کے چچا، عورت کے باپ بچے کا نانا، اس کی ماں نانی، شوہر کا باپ دادا اور اس کی ماں دادی بن جاتی ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورۃ نساء میں محرمات کے ذکر میں یہ بھی بیان فرمایا ہے:

﴿وَأُمَّهـٰتُكُمُ الّـٰتى أَر‌ضَعنَكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم مِنَ الرَّ‌ضـٰعَةِ...٢٣﴾... سورة النساء

’’اور وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور رضاعی بہنیں(بھی حرام ہیں)‘‘

اور نبیﷺ نے فرمایا:

((يحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب )) ( صحيح البخاري)

’’رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہیں۔‘‘

اور نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے:

((لارضاع إلا في الحولين )) ( الدار قطني)

’’رضاعت وہی معتبر ہے جو دو سال کے اندر ہو۔‘‘

صحیح مسلم میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے۔:

((كان فيما أنزل من القرآن عشر رضعات معلومات يحرمن ثم نسخن بخمس معلومات فتوفي رسول الله ﷺ ، وهي فيما يقرأ من القرآن )) ( صحيح مسلم )

’’قرآن مجید میں پہلے دس معلوم رضعات کا حکم نازل ہوا تھا جن سے حرمت ثابت ہوتی تھی پھر ان میں سے پانچ معلوم رضعات کو منسوخ کردیا گیا اور جب نبی اکرمﷺ نے وفات پائی تو وہ پانچ رضعات والی آیات قرآٓن میں پڑھی جاتی تھیں۔‘‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح: جلد 3  صفحہ 159

محدث فتویٰ

تبصرے