کیا کسی شخص کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی اپنے باپ کے ماموں سے کر دے نیز کیا وہ اپنے چچا کی اسی بیٹی سے شادی کر سکتا ہے جس نے اس کے ساتھ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ دودھ پیا ہو؟
پہلا سوال کہ کیا سائل کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا اپنے باپ کے ماموں سے نکاح کرے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حلال نہیں کیونکہ باپ کا ماموں سائل کا اس کی اولاد اور اولااد کی اولاد کا بھی ماموں ہے اور اللہ تعالیٰ نے ماموں کے لئے بھانجیوں سے شادی کرنا حرام قرار دیا ہے خواہ وہ کتنے ہی نیچے درجے میں ہوں، دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر رضاعت پانچ یا اس سے زیادہ رضعات پر مشتمل ہو اورر دودھ دو سال کی مدت کے اندر پیا ہو تو وہ بھی موجب حرمت ہے لہٰذا سائل کے لئے اس صورت میں یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے چچا کی اس بیٹی سے شادی کرے جس نے اس کے ساتھ یا اس کے کسی بھائی کے ساتھ مل کر دودھ پیا ہو اور اگر رضعات پانچ سے کم ہوں یا دو سال کی مدت کے بعد ہوں تو پھر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ شرعاً معتبر رضعہ یہ ہے کہ بچہ پستان سے دودھ پیے اور پینے کے بعد جب پستان چھوڑے تو اسے ایک رضعہ کہتے ہیں اور جب دوبارہ پینا شروع کردے تو یہ دوسرا رضعہ ہو گا حتیٰ کہ وہ اسی طرح پانچ رضعات مکمل کر لئے، اس سے واضح ہوا کہ رضاعت میں اس اعتبار اس کیفیت کا ہے جو ہم نے ابھی ابھی بیان کی ہے، اس بات کا اعتبار نہیں ہے کہ رضاعت ایک دن یا دن کے کچھ حصے پر مشتمل ہے کیونکہ شرعاً معتبر رضاعت کو بچہ کبھی ایک گھنٹے سے بھی کم مدت میں پورا کر لیتا ہے اور کبھی اس پر پانچ یا اس سے زیادہ دن بھی صرف ہو سکتے ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب