سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(178) اپنے بھائی کی رضاعی بہن سے نکاح

  • 9633
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3027

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں اپنی پھوپھی زاد سے شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن یاد رہے کہ میرے بڑے بھائی نے میری اس پھوپھی کا ایک سے زیادہ بار دودھ پیا ہے لیکن میں نے اپنی اس پھوپھی کا مطلقاً دودھ نہیں پیا اور میری اس پھوپھی زاد نے بھی میری ماں کا دودھ بالکل نہیں پیا۔ سوال یہ ہے کیا میں اپنی اس پھوپھی زاد سے شادی کر سکتا ہوں یا میں اس کا بھائی ہوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سوال کا جواب نبی اکرمﷺ کے اس ارشاد کی روشنی میں دیا جائے گا۔

((يحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب )) (صحيح البخاري)

’’رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہیں۔‘‘

یعنی رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہیں جو قرابت سے حرام ہیں کیونکہ نسب قرابت ہے۔ لفظ’نسب‘ کے بارے میں انشاء اللہ عنقریب تفصیل ذکر کروں گا۔

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اپنی اس پھوپھی زاد سے شادی کر سکتے ہیں جس کی ماں کا آپ کے بھائی نے دودھ پیا ہے کیونکہ آپ کے اور اس کے درمیان ایسا کوئی رضاعی رشتہ نہیں ہے، لہٰذا آپ اس کے بھائی نہیں ہیں کیونکہ آپ نے تو اس کی ماں کا دودھ نہیں پیا ہے لہٰذا وہ آپ کی بہن نہیں ہے حرمت صرف دودھ پینے والے اور اس کی اولاد کے بارے میں ثابت ہوتی ہے۔ یعنی رضاعت کا اثر دودھ پینے والے اور اس کی اولاد پر مرتب ہوتا ہے، اس کے بہن بھائیوں پر یا اصول میں جو اس سے اوپر کے رشتے دار ہوں ان تک اس حرمت کا اثر نہیں پہنچتا ہاں البتہ یہ حرمت دودھ پینے والے اور اس کی اولاد کی طرف دودھ پلانے والی کی طرف سے ضرور منتقل ہوتی ہے نیز اس کی طرف سے بھی جس کی طرف سے اس کا دودھ منسوب ہو یعنی جس نے اسے دودھ پلایا ہو یہ اس کی ماں ہو گی، اس کی ماں اس کی نانی ہو گی، اس کا باپ اس کا نانا ہو گا، اس کے بھائی اس کے ماموں ہوں گے اور اس کی بہنیں اس کی خالائیں ہوں گی۔

اس طرح جس کی طرف اس عورت کا دودھ منسوب ہو اور وہ اس کا شوہر ہو گا یا آقا یا وہ جس نے شبہ کی وجہ سے اس سے وطی کی ہو تو وہ اس کا باپ ہو گا اور اس کی اولاد دودھ پینے والے کے بھاء یاور اس کے بھائی اس کے چچے اور بہنیں، پھوپھیاں ہوں گی۔ یہ سب کچھ ہم نبی اکرمﷺ کے اس فرمان سے لیتے ہیں۔

((يحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب )) (صحيح البخاري)

’’رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہیں۔‘‘

کلمہ’’نسب‘‘ (قرابت داری) کے متعلق میں نے جو یہ کہا تھا کہ اس کے بارے میں تفصیل ذکر گزارش  کروں گا تو وہ یہ ہے کہ بہت سے عوام انساب یا ارحام  کے کلمے سے یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے مراد میاں بیوی یا بیوی کے رشتے دار ہیں حتیٰ کہ کئی آدمی یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص میرے انساب یا ارحام میں سے ہے، کیونکہ میں نے ان میں شادی کی ہے، یہ بات لغت اور شریعت کے اعتبار سے غلط ہے کیونکہ انساب اور ارحام سے مراد تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو باپ یا ماں کی طرف سے رشتے دار ہوں اور جو میاں بیوی کی طرف سے رشتے دار ہوں تو انہیں انساب نہیں بلکہ اصہار(سسرال) کہا جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَهُوَ الَّذى خَلَقَ مِنَ الماءِ بَشَرً‌ا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهرً‌ا...٥٤﴾...سورةالفرقان

’’اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا پھر اس کو نسب والا اور سسرالی رشتوں والا کردیا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے باہمی تعلقات کے لئے ان دو چیزوں یعنی نسب اورمصاہرت کو ذریعہ بنایا ہے اور یہ دو الگ الگ قسمیں ہیں، میں نے اس کی طرف یہ توجہ اس لئے دلائی ہے کہ تاکہ لوگوں کو شرعی الفاظ کے مدلولات کا علم ہو جائے اور وہ غلطی کا ارتکاب نہ کریں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 153

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ