سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(167) اگر منگیتر شرعی حکم کی پابندی سے انکار کردے

  • 9622
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1190

سوال

(167) اگر منگیتر شرعی حکم کی پابندی سے انکار کردے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے تین سال سے ایک عورت سے منگنی کر رکھی ہے اور اس اثناء میں میں نے اسے لکھا ہے کہ شادی کے بعد میں انشاء اللہ اسے مخلوط کام یا غیر محرموں سے مصافحہ کی اجازت نہیں دوں گا، میں نے ان مسائل سے متعلق اسے آیات، احادیث اور علماء کے فتاویٰ بھی بھیجے ہیں لیکن اس نے ہر مرتبہ مجھے یہی جواب دیا ہے کہ وہ اپنے چچا زاد، خالہ زاد اور پڑوسیوں کے بیٹے کو سلام کہے گی او رمخلوط کام بھی کرے گی لیکن میں نے اپنی بات کو شرط کے طور پر پیش کیا ہے تاکہ شادی کے بعد اختلاف نہ ہو اور میں نے جو مذکورہ باتیں لکھی ہیں ان کو تسلیم کرنا اس کے لئے فرض قرار دیا ہے ، امید ہے آپ بھی میری رہنمائی فرمائیں گے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے اچھا کیا جو یہ شرط عائد کردی ہے کیونکہ مسلمان عورت کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ہر اس مرد سے پردہ کرے جو اس کا محرم نہیں ہے چہ جائیکہ  اس سے مصافحہ بھی کرے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِذا سَأَلتُموهُنَّ مَتـٰعًا فَسـَٔلوهُنَّ مِن وَر‌اءِ حِجابٍ ۚ ذ‌ٰلِكُم أَطهَرُ‌ لِقُلوبِكُم وَقُلوبِهِنَّ...٥٣﴾... سورة الاحزاب

’’ اور جب تم نبیﷺ کی بیویوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے کامل پاکیزگی کی بات ہے۔‘‘

یہ آیت عام ہے ازدواج مطہرات اور دیگر تمام عورتوں کو شامل ہے جیسا کہ خطاب شریعت کے سلسلے میں اصول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو تمام لوگوں کی طرف معبوت فرمایا ہے لہٰذا کسی خاص دلیل کے بغیر کسی حکم کی تخضیص جائز نہیں ہے اور پھر اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو علت بیان کی ہے یعنی دلوں کی پاکیزگی تو یہ ایک ایسی علت ہے جس کی ہر مسلمان مرد و عورت کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں ایک دلیل حسب ذیل ارشاد باری  تعالیٰ بھی ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ قُل لِأَزو‌ٰجِكَ وَبَناتِكَ وَنِساءِ المُؤمِنينَ يُدنينَ عَلَيهِنَّ مِن جَلـٰبيبِهِنَّ ۚ ذ‌ٰلِكَ أَدنىٰ أَن يُعرَ‌فنَ فَلا يُؤذَينَ ۗ وَكانَ اللَّهُ غَفورً‌ا رَ‌حيمًا ٥٩﴾... سورة الاحزاب

’’ اے نبیﷺ! اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادر لٹکا لیا کریں۔ اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

اور سورۃ نور میں فرمایا:

﴿وَقُل لِلمُؤمِنـٰتِ يَغضُضنَ مِن أَبصـٰرِ‌هِنَّ وَيَحفَظنَ فُر‌وجَهُنَّ وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا ما ظَهَرَ‌ مِنها ۖ وَليَضرِ‌بنَ بِخُمُرِ‌هِنَّ عَلىٰ جُيوبِهِنَّ ۖ وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا لِبُعولَتِهِنَّ أَو ءابائِهِنَّ أَو ءاباءِ بُعولَتِهِنَّ أَو أَبنائِهِنَّ أَو أَبناءِ بُعولَتِهِنَّ أَو إِخو‌ٰنِهِنَّ أَو بَنى إِخو‌ٰنِهِنَّ أَو بَنى أَخَو‌ٰتِهِنَّ أَو نِسائِهِنَّ أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُنَّ أَوِ التّـٰبِعينَ غَيرِ‌ أُولِى الإِر‌بَةِ مِنَ الرِّ‌جالِ أَوِ الطِّفلِ الَّذينَ لَم يَظهَر‌وا عَلىٰ عَور‌ٰ‌تِ النِّساءِ ۖ وَلا يَضرِ‌بنَ بِأَر‌جُلِهِنَّ لِيُعلَمَ ما يُخفينَ مِن زينَتِهِنَّ ۚ وَتوبوا إِلَى اللَّهِ جَميعًا أَيُّهَ المُؤمِنونَ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٣١﴾... سورة النور

’’اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زنیت کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں سوائے اس کے جو اس میں  سے ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں اوڑھنے رہا کریں اور اپنے خاوند اورباپ اور خسر اور بیٹوں اور خاوند کے بیٹوں(غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت (اور سنگار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیں اور اپنے پائوں(ایسے طور سے زمین پر) نہ ماریں کہ (جھنکار کانوں میں پہنچے) اور ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہو جائے اور مومنو! سب اللہ کے آگے توبہ کرو۔تاکہ فلاح پائو۔‘‘

 اس آیت میں’’بعولتھن‘‘ سے مراد عورتوں کے خاوند ہیں اور زینت سے مراد جسمانی زینت، جس طرح کہ چہرہ ، دونوں ہاتھ، سر ، دونوں قدم اور بدن کے دوسرے حصے ہیں او اس سے مراد کتسابی زینت بھی ہے جس طرح کہ زیور ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمان میں اشارہ فرمایا ہے:

﴿وَلا يَضرِ‌بنَ بِأَر‌جُلِهِنَّ لِيُعلَمَ ما يُخفينَ مِن زينَتِهِنَّ...٣١﴾... سورة النور

’’اور اپنے پائوں(ایسے طور سے زمین پر)نہ ماریں کہ (جھنکار کانوں میں پہنچے اور)ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہو جائے۔‘‘

اور زینت سے مراد یہاں’ پازیب‘‘ ہے اور چونکہ جسمانی اور اکتسابی زینت کا اظہار مردوں کے فتنے کے باعث ہے اور اسی طرح نرم انداز گفتگو بھی مردوں کے فتنے اور بیمار دل والوں کے طمع کا سبب ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿يـٰنِساءَ النَّبِىِّ لَستُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ ۚ إِنِ اتَّقَيتُنَّ فَلا تَخضَعنَ بِالقَولِ فَيَطمَعَ الَّذى فى قَلبِهِ مَرَ‌ضٌ وَقُلنَ قَولًا مَعر‌وفًا ﴿٣٢﴾... سورة الاحزاب

’’اے نبی کی بیویوٖ! تم دیگر عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیز گار رہنا چاہتی ہو تو(کسی اجنبی شخص سے) نرم لہجے میں بات نہ کرنا تاکہ وہ شخص جس کے دل  میں کسی طرح کا مرض ہے کوئی امید(نہ) پیدا کر لے ہاں دستور کے مطابق بات کیا کرو۔‘‘

اس لئے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو نرم انداز سے بات کرنے سے منع فرمایا اور دستور کے مطابق بات کرنے کا حکم دیا یعنی ایسے طریقے سے بات کرنے کا حکم دیا جس میں نہ نرمی ہو اور نہ سختی۔ غور فرمائیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ازدواج مطہرات کو نرم انداز میں بات کرنے سے منع فرما دیا اور مردوں کو منع فرما دیا کہ پردے کے بغیر ان سے کوئی چیز طلب نہ کریں حالانکہ وہ کائنات کی سب سے پاکباز اور سب سے زیادہ متقی پرہزگار خواتین ہیں تو ان کے علاوہ پھر دیگر خواتین کے لئے تو فتنے کا زیادہ ڈر ہے جب وہ بات میں نرم لہجہ اختیار کریں یا پردہ ہٹا دیں۔

عورتوں کا غیر محرم مردوں سے مصافحہ بھی جائز نہیں کیونکہ یہ بھی فتنے کا سبب ہے اور رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:

((إني لا أصافح النساء )) سنن ابن ماجه )

 ’’ تحقیق میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔‘‘

اور حضرت عائشہؓ سے روایت ہے:

((والله ما مست يد رسول الله ﷺ امرأة قط غير أنه بايعهن بالكلام )) ( صحيح البخاري)

 ’’اللہ کی قسم:! رسول اللہﷺ کے دست مبارک نے کبھی کسی(غیر محرم) عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا تھا، آپﷺ ان سے بیعت بھی زبانی لیا کرتے تھے۔‘‘

تمام مسلمان عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کی پابندی کریں، اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور سے اپنے آپ کو بچائیں ، اسباب فتنہ سے بھی بچیں، عورتوں کے وارثوں کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ ان سے احکام شریعت کی پابندی کرائیں اور ایسے اسباب اختیار کرنے کی تلقین کریں جن میں نجات، سعادت اور انجام کی بہتری ہو، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ‌ وَالتَّقوىٰ...٢﴾... سورة المائدة

’’اور نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَالعَصرِ‌ ﴿١ إِنَّ الإِنسـٰنَ لَفى خُسرٍ‌ ﴿٢ إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ وَتَواصَوا بِالحَقِّ وَتَواصَوا بِالصَّبرِ‌ ﴿٣﴾... سورة العصر

’’زمانے کی قسم! یقیناً انسان نقصان میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق(بات) کی تلقین کرتے رہے اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿الرِّ‌جالُ قَوّ‌ٰمونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ وَبِما أَنفَقوا مِن أَمو‌ٰلِهِم...٣٤﴾... سورة النساء

 ’’مرد عورتوں پر مسلط و حاکم ہیں اس لئے کہ اللہ نے بعض کو بعض پر فضلیت دی اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَالمُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ ۚ يَأمُر‌ونَ بِالمَعر‌وفِ وَيَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ‌ وَيُقيمونَ الصَّلو‌ٰةَ وَيُؤتونَ الزَّكو‌ٰةَ وَيُطيعونَ اللَّهَ وَرَ‌سولَهُ ۚ أُولـٰئِكَ سَيَر‌حَمُهُمُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزيزٌ حَكيمٌ ﴿٧١﴾... سورة التوبة

 ’’ اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے معاون اور دوست ہیں وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اور نمازوں کو پابندی سے بجا لاتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ  اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ جلد رحم کرے گا۔ بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں یہ واضح فرما دیا ہے کہ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون، حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرنا واجب ہے اور سورۃ العصر میں واضح فرمایا کہ مکمل نفع اور کامل اور سعادت اور نقصان سے حفاظت صرف انہی اہل ایمان کے لئے ہے جو عمل صالح، حق کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے ہیں جیسا کہ اوپر بیان کی گئی آخری آیات میں فرمایا:

﴿وَالمُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ ۚ...٧١﴾... سورة التوبة

 ’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔‘‘

اور مکمل رحمت صرف انہی لوگوں کا مقدر ٹھہرے گی جو اللہ تعالیٰ کے دین و اطاعت پر  اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت پر اور استقامت کے ساتھ ڈٹے رہیں گے۔

تمام مومن مردوں اور عورتوں پر واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کی پابندی کیا کریں اور اس پر استقامت کا مظاہرہ کریں اور اس کی مخالفت سے اجتناب کریں کہ اس سے سب کو وہ کامیابی و کامرانی حاصل ہو گی جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں اور بندیوں سے وعدہ فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿وَعَدَ اللَّهُ المُؤمِنينَ وَالمُؤمِنـٰتِ جَنّـٰتٍ تَجر‌ى مِن تَحتِهَا الأَنهـٰرُ‌ خـٰلِدينَ فيها وَمَسـٰكِنَ طَيِّبَةً فى جَنّـٰتِ عَدنٍ ۚ وَرِ‌ضو‌ٰنٌ مِنَ اللَّهِ أَكبَرُ‌ ۚ ذ‌ٰلِكَ هُوَ الفَوزُ العَظيمُ ﴿٧٢﴾... سورة التوبة

’’اللہ نے ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں سے ان باغات(جنتوں) کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں(وہ ) ان میں ہمیشہ رہیں گے اور بہشت ہائے جاودانی میں نفیس مکانات کا(وعدہ کیا ہے) اوراللہ  کی رضا مندی تو سب سے بڑھ کر نعمت ہے، یہی زبردست کامیابی ہے۔‘‘

ہم دعا کرتے ہیں کہ الہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ہدایت اور حق پر ثابت قدمی کی توفیق عطا فرمائے، ہم سائل کو یہ وصیت بھی کریں گے کہ وہ اس منگیتر کے علاوہ جس نے حکم شریعت کی پابندی سے انکار کردیا ہے ، شادی کے لئے کوئی اور ایماندار عورت تلاش کر لے، اگر آپ طلب میں صادق ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہے تو ہم آپ کو خیر و بھلائی اور حسن انجام کی بشارت دیتے ہیں کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔:

﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجعَل لَهُ مَخرَ‌جًا ﴿٢ وَيَر‌زُقهُ مِن حَيثُ لا يَحتَسِبُ...﴿٣﴾... سورة الطلاق

 ’’ اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لئے (رنج و محن سے) مخلصی کی صورت پیدا کر دے گا اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے(وہم و گمان) بھی نہ ہو۔‘‘

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجعَل لَهُ مِن أَمرِ‌هِ يُسرً‌ا ﴿٤﴾... سورة الطلاق

 ’’ اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا اللہ تعالیٰ اس کے کام  میں آسانی فرما دے گا۔‘‘

اور نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:

((احفظ الله يحفظك )) ( جامع الترمذي)

 ’’تم اللہ (کے دین) کی حفاظت کرو اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت فرمائے گا۔‘‘

اللہ تعالیٰ آپ کے لئے آسانی پیدا فرمائے، آپ کی حاجت کو پورا کرے، ہماری اور آپ کی عاقبت کو اچھا کرے، آپ کی منگیتر کو ہدایت عطا فرمائے، اسے حق کی پابندی کی توفیق عطا فرمائے اور اسے اپنے نفس اور شیطان کے شر سے بچائے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 140

محدث فتویٰ

تبصرے