سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(164) مشت زنی اور شیخ قرضاوی کا جواز کا فتویٰ

  • 9604
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-07
  • مشاہدات : 3162

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مشت زنی کے بارے میں شیخ قرضاوی اپنی کتاب(الحلال و الحرام)(ص116) (مطبوعہ مکتب الاسلامی) میں لکھنے ہیں کہ ’’امام احمدؓ سے روایت ہے کہ منی بھی دیگر جسمانی فضلات کی طرح ایک فضلہ ہے لہٰذا فصد کی طرح اسے خارج کرنا جائز ہے، ابن حزمؓ کا بھی یہی مذہب ہے اور انہوں نے بھی اس کی تائید کی ہے ، کیا یہ صحیح ہے کہ امام احمدؓ نے مشت زنی کو عام جائز قرار دیا ہے؟ اس کی دلیل کیا ہے؟ اور پھر یہ مصیبت اس قدر عام ہو رہی ہے کہ اللہ کی پناہ! نوجوان اس بدعادت میں مبتلا ہو کر یہ بھول رہے ہیں کہ اس حالت میں تو روزہ رکھنے کا حکم تھا۔ بعض نوجوانوں نے  بتایا کہ وہ کپڑے یا روئی سے لڑکی کی قبل یا دیر کی سی صورت بنا کر اس میں آلہ تناسل داخل کر کے اس سے وطی کرتے ہیں… الخ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل علم کے صحیح ترین قول کے مطابق مشت زنی حرام ہے، جمہور کا بھی یہی قول ہے او ر حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے:

﴿وَالَّذينَ هُم لِفُر‌وجِهِم حـٰفِظونَ ﴿٥ إِلّا عَلىٰ أَزو‌ٰجِهِم أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُم فَإِنَّهُم غَيرُ‌ مَلومينَ ﴿٦ فَمَنِ ابتَغىٰ وَر‌اءَ ذ‌ٰلِكَ فَأُولـٰئِكَ هُمُ العادونَ ﴿٧﴾... سورةالمؤمنون

’’ اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں مگر اپنی بیویوں سے یا کینزوں سے جو ان کی ملکیت ہوتی ہے کہ (ان سے مباشرت کرنے سے) انہیں ملامت نہیں اور جو ان کے سوا اور ڈھونڈیں وہ(اللہ کی مقرر کی ہوئی) حد سے نکل جانے والے ہیں۔‘‘

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس کی تعریف کی ہے جو اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے اور اپنی جنسی ضرورت صرف اپنی بیوی یا لونڈی سے پوری کرے اور جو اس کے علاوہ کسی بھی اور طریقے سے اپنی حاجت کو پورا کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حلال قرار دیئے ہوئے طریقے سے تجاوز کرتا ہے اور مشت زنی بھی اسی میں داخل ہے  جیسا کہ حافظ ابن کثیرؓ اور کئی دیگر  آئمہ نے اسے بیان فرمایا ہے اور پھر اس کے نقصانات بھی بہت زیادہ اور اس کے نتائج بھی بہت خوفناک ہیں، اس سے قویٰ مضمحل اور اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں اور اسلامی شریعت ہر اس چیز سے منع کرتی ہے جو انسان کے دین، بدن، مال اور عزت کے لئے نقصان دہ ہو۔

موفق بن قدامہؒ اپنی کتاب’المغنی‘ میں فرماتے ہیں کہ اگر اس نے مشت زنی کی تو ایک حرام فعل کا ارتکاب کیااور اگر انزال نہ ہو تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہو گا اور اگر انزال ہو گیا تو اس سے روزہ فاسدہ ہو جائے گا کیونکہ یہ فعل بوسہ لینے کی طرح ہے۔‘‘ ان کا مطلب یہ کہ مشت زنی بو سے کی طرح ہے، جبکہ اس کی وجہ سے انزال ہو جائے جبکہ بغیر انزال کے بوسہ لینے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیمہؒ (مجموع الفتاوی، جی34، ص:328 ) میں فرماتے ہیں کہ مشت زنی جمہور علماء کے نزدیک حرام ہے، امام احمدؒ کے مذہب میں بھی صحیح ترین قول یہی ہے لہٰذا مشت زنی کرنے والے کو تعزیری سزا دی جائے گی اور دوسرے قول کے مطابق یہ مکروہ ہے، حرام نہیں ہے  اکثر آئمہ زنا کے خوف یا کسی اور وجہ کے باوجود بھی اسے جائز قرار نہیں دیتے۔

علامہ محمد امین شنقیطیؒ اپنی تفسیر(اضواء البیان، ج5ص769) میں فرماتے ہیں کہ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ سورۃ المومنون کی یہ آیت:

﴿فَمَنِ ابتَغىٰ وَر‌اءَ ذ‌ٰلِكَ فَأُولـٰئِكَ هُمُ العادونَ ﴿٧﴾... سورة المؤمنون

’’اور جو ان کے سوا اور ڈھونڈیں وہ(اللہ کی مقرر کی ہوئی) حد سے نکل جانے والے ہیں۔‘‘

اپنے عموم کے اعتبار سے ’مشت زنی‘ کی ممانعت پر بھی ولالت کرتی ہے کیونکہ جوشخص اپنے ہاتھ سے لذت حاصل کرتے حتیٰ کہ اس سے انزال ہو جائے تو اس نے اس کے سوا طریقہ اختیار کیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے اور اس آیت کریمہ کے مطابق وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حد سے تجاوز کرنے والا ہے جیسا یہاں سورۃ المومنون میں اور سورۃ المعارج میں بھی مذکور ہے۔ حافظ ابن کثیرؒ نے ذکر کیا ہے کہ امام شافعیؒ اور ان کے متبعین نے اسی آیت کریمہ سے مشت زنی کی ممانعت پر استدلال کیا ہے۔

امام قرطبیؒ نے ذکر کیا ہے کہ محمد بن عبدالحکم نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے حرملہ بن عزیز سے یہ سنا کہ میں نے امام مالکؒ سے مشت زنی کرنے والے کے بارے میں پوچھا توآپ نے بھی:

﴿وَالَّذينَ هُم لِفُر‌وجِهِم حـٰفِظونَ ﴿٥ إِلّا عَلىٰ أَزو‌ٰجِهِم أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُم فَإِنَّهُم غَيرُ‌ مَلومينَ ﴿٦ فَمَنِ ابتَغىٰ وَر‌اءَ ذ‌ٰلِكَ فَأُولـٰئِكَ هُمُ العادونَ ﴿٧﴾... سورةالمؤمنون

’ اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں یا کینزوں سے جو ان کی ملکیت ہوتی ہیں کہ(ان سے )مباشرت کرنے سے انہیں ملامت نہیں۔ اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ (اللہ کی مقرر کردہ حد سے ) نکل جانے والے ہیں۔‘‘

تلاوت فرماوی، امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ مجھے بھی بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ امام مالک و امام شافعی اور دیگر اہل علمؒ کا اس آیت کریمہ سے مشت زنی کی ممانعت پر استدلال کتاب اللہ کی روشنی میں صحیح ہے کیونکہ قرآن مجید سے  بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے اور کتاب و سنت سے کوئی چیز اس کے معارض ثابت نہیں ہے۔ امام احمدؒ کے علم و جلالت اور تقویٰ کے اعتراف کے باوجود ہم یہ کہیں گے کہ انہوں نے جو یہ قیاس کرتے ہوئے اسے جائز قرار دیا ہے کہ یہ بھی بوقت ضرورت بدن سے فضلہ کا اخراج ہے لہٰذا فصد اور سینگی پر قیاس کرتے ہوئے جائز ہے جیسا کہ کسی شاعر نے بھی کہا ہے:

إذا حللت بواد لا أنيس به

فاجلد عميرة لاعار ولاحرج

’’جب کسی ایسی وادی میں آئو جہاں محبوب نہ ہو تو مشت زنی کر لو اس میں عار اور حرج کی کوئی بات نہیں۔‘‘

تو یہ قیاس درست نہیں ہے اگرچہ امام احمدؒ کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے لیکن یہ قیاس چونکہ عموم قرآن کے ظاہر کے خلاف ہے اور جو اس طرح کا قیاس ہو وہ فاسد الاعتبار ہوتا ہے جیسا کہ ہم نے اس مبارک کتاب(تفسیر قرطبی) میں اسے کئی بار ذکر کیا ہے اور ہم نے مراقی السعود کے قول کا حوالہ بھی دیا تھا۔

والخلف للنص أو إجماع دعا

فساد الإعتبار كل من وعى

’’تمام علماء کے نزدیک نص یا اجماع کی مخالفت غیر معتبر ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿ وَالَّذينَ هُم لِفُر‌وجِهِم حـٰفِظونَ ﴿٥﴾... سورة المؤمنون

’’اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘

اور اس سے صرف دو ہی قسموں کو مستثنیٰ قرار دیا اور فرمایا ہے:

﴿إِلّا عَلىٰ أَزو‌ٰجِهِم أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُم فَإِنَّهُم غَيرُ‌ مَلومينَ ﴿٦﴾... سورة المؤمنون

’’مگر اپنی بیویوں سے  یا کینزوں سے جو ان کی ملکیت ہوتی ہیں ان کے بارے میں انہیں کوئی ملامت نہیں ہے۔‘‘

یعنی شرم گاہ کی عدم حفاظت صرف بیوی اور کنیز ہی سے مستثنیٰ ہے اور پھر اس کے بعد بہت جامع مانع الفاظ استعمال کئے گئے جنہوں نے ان دو صورتوں کے سوا باقی ہر صورت سے منع کردیا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَمَنِ ابتَغىٰ وَر‌اءَ ذ‌ٰلِكَ فَأُولـٰئِكَ هُمُ العادونَ ﴿٧﴾... سورة المؤمنون

’’ اور جو ان کے سوا ڈھونڈیں وہی تو (اللہ کی مقرر کی ہوئی) حد سے نکل جانے والے ہیں۔‘‘

اور بلا شک و شبہ یہ عموم مشت زنی کرنے والے کو بھی شامل ہے اور عموم قرآن کے ظاہر سے کتاب و سنت کی کسی ایسی دلیل کے بغیر جس کی طرف رجوع واجب ہو، روگردانی جائز نہیں ہے اور وہ قیاس جو ظاہر قرآن کے مخالف ہو وہ فاسد الاعتبار ہوتا ہے جیسا کہ ہم نے اس کی وضاحت کر دی ہے۔

ابو الفضل عبداللہ بن محمد بن صدیق حسنی ادریسی اپنی کتاب ’’الاستقاء لادلة تحریم الاستمنا او العادة السریة من الناحیثین الدینة و الصحیة‘‘ میں ’’مشت زنی کی حرمت اور اس کی دلیل کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں۔‘‘ مالکیہ، شافیعہ، حنیفہ اور جمہور علماء کا یہ مذہب ہے کہ مشت زنی حرام ہے ، صحیح مذہب بھی یہی ہے، اس کے علاوہ اس مسئلے میں کوئی اور قول جائز نہیں ہے اوراس کے دلائل حسب ذیل ہیں۔

پہلی دلیل ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَالَّذينَ هُم لِفُر‌وجِهِم حـٰفِظونَ ﴿٥ إِلّا عَلىٰ أَزو‌ٰجِهِم أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُم فَإِنَّهُم غَيرُ‌ مَلومينَ ﴿٦ فَمَنِ ابتَغىٰ وَر‌اءَ ذ‌ٰلِكَ فَأُولـٰئِكَ هُمُ العادونَ ﴿٧﴾... سورةالمؤمنون

’’  اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مگر اپنی بیویوں سے یا کینزوں سے جو ان کی ملکیت ہوتی ہیں کہ ان( سے مباشرت کرنے سے) انہیں ملامت نہیں اور جو ان کے سوا اور تلاش کریں وہ(اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ) حد سے نکل جانے والے ہیں۔‘‘

اس آیت کریمہ سے استدلال ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی تعریف فرمائی ہے کہ وہ حرام کام سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں لیکن اپنی بیویوں یا کینزوں کے پاس جانا قابل ملامت نہیں ہے اور پھر اس کے بعد ذکر فرمایا کہ جو کوئی بیویوں یا لونڈیوں کے سوا کوئی اور طریقہ اختیار کرے تو وہ ظالم ہے اورحلال سے تجاوز کر کے حرام کا ارتکاب کرتا ہے اور جو کوئی حد سے تجاوز کر جائے تو اسلام اسے ظالم قرار دیتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمَن يَتَعَدَّ حُدودَ اللَّهِ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ ﴿٢٢٩﴾... سورةالبقرة

 ’’اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے تجاوز کر جائیں وہی ظالم ہیں۔‘‘

تو یہ آیت بیویوں اور کینزوں کے سوا حرمت کے لئے عام ہے اور بلا شک مشت زنی بھی ان دونوں کے علاوہ ہے لہٰذا وہ حرام ہے اور اسے کرنے والا نص قرآن کی روشنی میں ظالم ہے۔ اس کے بعد مصنف نے مشت زنی کی حرمت کے دلائل کو بیان کرتے ہوئے چھٹی دلیل کے طور پر یہ لکھا ہے کہ علم طب سے ثابت ہے کہ مشت زنی کئی ایک بیماریوں کا سبب بنتی ہے کہ اس سے نظر کمزور ہو جاتی ہے، حرارت غریزی بڑی حد تک کم ہو جاتی ہے، آل تناسل کمزور ہو جاتا ہے اس میں جزوی یا کلی طور پر استرخائ(ڈھیلا پن) پیدا ہو جاتا ہے اور مشت زنی کرنے والا اس قوت مردی کے ختم ہو جانے کی وجہ سے جس سے اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضلیت عطا فرمائی ہے ، عورت کے مشابہ ہو جاتا ہے اور شادی کی استطاعت سے محروم ہو جاتا ہے اور اگر وہ شادی کر بھی لے تو وہ صحیح طور پر وظیفہ زوجیت سرانجام نہیں دے سکتا جس کی وجہ سے اس کی بیوی یقیناً کسی اور کی طرف دیکھے گی کیونکہ یہ اس کی ضرورت پوری نہیں کر سکتا لہٰذا اس میں یہ بے پناہ خرابیاں ہیں جو کسی سے بھی مخفی نہیں۔

مشت زنی کے نتیجے میں لاحق ہونے والی کمزوری کی وجہ سے اعصاب بھی کمزور ہو جاتے ہیں ، اس سے معدہ کمزور ہو جاتا ہے اور نظام ہضم میں خلل آ جاتا ہے، اس سے جسمانی نشو ونما خصوصاً آلہ تناسل اور خصیتین کی نشو نما رک جاتی ہے اور یہ اپنی طبی حد تک نہیں پہنچتے، اس سے خصیتین میں التہاب منی کی وجہ سے سوزش پیدا ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے مشت زنی کا عادی بری طرح سرعت انزال کا مریض بن جاتا ہے کہ آلہ تناسل سے کسی چیز کی معمولی رگڑ سے بھی انزال ہو جاتا ہے۔

اس سے ریڑھ کی ہڈی کے مہروں میں بھی درد رہنے لگتا ہے چونکہ منی بھی پشت ہی سے خارج ہوتی ہے لہٰذا اس درد کی وجہ سے کمر خمیدہ ہو کر ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔

مرد کی غلیظ اور گاڑھی ہوتی ہے لیکن مشت زنی کرنے والے کا مادہ منویہ پتلا اور رکیک ہو جاتا ہے اور اس میں جراثیم بھی نہیں ہوتے یا بہت کمزور ہوتے ہیں جس کیوجہ سے اس کا مادہ بار آور نہیں ہوتا یا اس سے بہت ہی کمزور جنین پیدا ہوتا ہے لہٰذا اگر مشت زنی کرنے والے کے ہاں بچہ پیدا بھی ہو جائے تو وہ بہت دبلا پتا اور کمزورہوتا ہے طبعی اور تندرست منی سے پیدا ہونے والے بچوں کی طرح صحت مند نہیں ہوتا، اس سے بعض اعضاء مثلاً پائوں وغیرہ میں رعشہ بھی پیدا ہو جاتا ہے مشت زنی  سے دماغ کے غدود بھی کمزور ہو جاتے ہیں جس سے عقل و فہم میں کمی پیدا ہو جاتی ہے خواہ وہ پہلے کتنا ہی عقل مند کیوں نہ ہو اور یہ دماغی کمزوری بسا اوقات اس قدر زیادہ ہوجاتی ہے کہ اس سے عقل میں فتور آ جاتا ہے۔

ان دلائل اور مشت زنی کے نقصانات  کی تفصیل سے سائل کے لئے یقیناً یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ مشت زنی حرام ہے، روئی وغیرہ سے شرمگاہ کی شکل بنا کر اور اس میں آلہ تناسل داخل کر کے منی کا اخراج بھی مشت زنی ہی کی طرح ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 136

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ