السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص لڑکی کا رشتہ طلب کرنے کے لئے آیا مگر اس کے وارث نے انکار کردیا کیونکہ وہ اس لڑکی کو شادی سے محروم رکھنا چاہتا ہے تو اس کے بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے؟ فتویٰ عنایت فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مذکورہ بالا سوال کا شیخ ابن عثیمین کے قلم سے جواب:
ورثا کا فرض ہے کہ وہ لڑکیوں کی جلد شادی کر دیں جب ان سے ان کے کفو(ہم مرتبہ لوگ) رشتہ طلب کریں اور لڑکیاں بھی اس پر راضی ہوں۔ کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:
((اذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه إلا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد عريض)) ( جامع الترمذي)
’’جب تم سے کوئی ایسا شخص رشتہ طلب کرے جس کا دین و اخلاق تمہیں پسند ہو تو اسے رشتہ دے دو ورنہ زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد رونما ہو جائے گا۔‘‘
یہ جائز نہیں کہ عورتوں کو اپنے چچا زاد وغیرہ سے شادی کرنے کی خاطر مجبور کیا جائے اور اس وجہ سے کسی اور جگہ ان کی شادی نہ کی جائے، اور نہ یہ جائز ہے کہ بہت زیادہ مال کے مطالبے یا دیگر ایسی اغراض کی وجہ سے جن کا اللہ اور اس کے رسولﷺ نے حکم نہیں دیا انہیں شادی سے روکا جائے۔ امراء و قضاۃ اور حکمرانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ان وارثوں کو منع کریں جنہوں نے اپنی لڑکیوں کو اس طرح کے مقاصد کی خاطر شادی سے روک رکھا ہے اور ان کی ان کے قریبی رشتے داروں سے شادیاں کر دیں تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو، عدل و انصاف قائم ہو اور نوجوان بچوں ا ور بچیوں کو حرام امور میں مبتلا ہونے سے روکا جائے ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سب کو ہدایت کی اورخواہشات نفس پر حق کو ترجیح دینے کی توفیق عطا فرمائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب