السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض اسلامی ملکوں کی ایسی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں اسلام کا کیا موقف ہے، جن میں بہت زیادہ فسق و فجور اور کفر ہے کہ ان میں لڑکیاں بالکل عریاں لڑکے گمراہ اور منحرف اور اس طرح کھلم کھلا اور بدترین فحاشی کے انداز میں اختلاط کہ جسے اسلام قطعاً پسند نہیں کرتا لیکن یونیورسٹیوں کی تعلیمی امور کی انتظامیہ اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور دوسری طرف ان یونیورسٹیوں کے بہت سے کالجوں میں مسجد تک کا انتظام نہیں کہ جس میں ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہو سکے اور پھر ان یونیورسٹیوں میں جس یونیفارم کو لازم قرار دیا گیا ہے وہ یورپ کے مشرکوں کا یونیفارم ہے کہ اس کے بغیر کسی دوسرے لباس مثلاً قیمض اور پگڑی وغیرہ کے ساتھ امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی کیونکہ ان کے نزدیک یہ لباس دقیانوسیت اور جہالت کی علامت ہے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
علوم نافعہ کی تعلیم حاصل کرنا فرض کفایہ ہے لہٰذا امت خصوصاً حکمرانوں کا یہ فرض ہے کہ مختلف انواع و اقسام کے ایسے علوم حاصل کرنے کے لئے مردوں اور عورتوں کی ایک جماعت تیار کریں جن کی ملک و ملت کو ضرورت ہو تاکہ امت اپنی ثقافت کی حفاظت کر سکے، اپنے مریضوں کا علاج کر سکے اور خطرات سے بچ سکے اگر یہ مقصد پورا ہو جائے تو اس سے امت بری الذمہ ہو جائے گی ، ثواب کی امید ہو گی ورنہ آفتیں مصیبتیں گھیر لیں گی اور امت مبتلائے عذاب ہو جائے گی۔
(2) تعلیمی اداروں میں طلبہ کا طالبات کے ساتھ اور اساتذہ کا استانیوں کے ساتھ اختلاط حرام ہے کیونکہ یہ فتنہ و فساد برپا کرتا ہے ، جنسی جذبات بھڑکاتا اور فحاشی میں مبتلا کرتا ہے اور اس وقت گناہ گنار اور جرم بڑا ہو گا جب استانیاں یا طالبات برہنگی کا مظاہرہ کریں گی یا ایسا بہت ہی باریک لباس پہنیں گی جس سے سب کچھ نظر آتا ہو یا وہ طلبہ و اساتذہ کے ساتھ خوش طبعی اور مذاق کریں یا کوئی اور ایسی حرکت کریں جو جنسی انارکی اور اخلاقی بے راہ روی تک پہنچانے والی ہو۔
حکمرانوں پر فرض ہے کہ وہ طلبہ اور طالبات کے لئے الگ الگ تعلیمی ادارے، کالج اور یونیورسٹیاں قائم کریں تاکہ دین کی حفاظت کی جا سکے، جنسی انارکی اور اخلاقی بے راہ روی کو روکا جا سکے، غیرت مند اور دین دار لوگوں کے لئے کسی حرج یا تنگی کے بغیر زیور تعلیم سے آراستہ ہونا بھی اس صورت میں ممکن ہو گا اور اگر حکمران اپنا فرض ادا نہ کریں ، مردوں اور عورتوں کے تعلیمی ادارے الگ الگ نہ کریں اور عریاں و برہنہ طالبات کو نہ روکیں تو پھر ان لوگوں کے ساتھ شامل ہونا جائز نہیں ہے سوائے اس شخص کے جسے یہ قدرت حاصل ہو کہ وہ ان تعلیمی اداروں میں جا کر منکر کو کم کر سکے۔اور اپنے جیسے ساتھیوں اور اساتذہ کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی اور تعاون سے شر کو کم کر سکے اور وہ اپنے آپ کو فتنے سے بچا سکے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب