السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا کسی لڑکی کے لئے ایسی جگہ کام کرنا جائز ہے جہاں مرد اور عورت مل کر کام کرتے ہوں اور اس جگہ اس کے علاوہ اور لڑکیاں بھی کام کرتی ہوں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میرے رائے میں حکومت کے کسی ادارے، محکمے یا سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں یا دیگر اداروں میں مردوں عورتوں کا مل جل کر کام کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میل جول سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں سے ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ اس سے عورتوں کی حیا اور مردوں کی ہیبت ختم ہو جاتی ہے نیز یہ اختلاط اسلامی شریعت کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے اور سلف صالحین کے عمل کے بھی، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ نبی اکرمﷺ نے عید گاہ جانے کے لئے عورتوں کے لئے ایک خاص راستہ کا تعین فرمایا تھا تاکہ ان کا مردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو جیسا کہ حدیث صحیح سے یہ بھی ثابت ہے کہ بنی اکرمﷺ جب مردوں کے خطاب سے فارغ ہو گئے تو آپﷺ عورتوں کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں وعظ و نصیحت فرمائی، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خواتین مردوں سے اس قدر فاصلے پر تھیں کہ وہ بنی اکرمﷺ کا وہ خطبہ نہیں سن پائی تھیں جو آپﷺ نے مردوں کے اجتماع میں ارشاد فرمایا تھا کہ اگر سن پائی تھیں تو مکمل طور پر نہ سن پائی تھیں، پھر آپ کو معلوم نہیں کہ نبی اکرمﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے:
((خير صفوف الرجال أولها وشرها آخرها وخير صفوف النساء آخرها وشرها أولها )) ( صحيح مسلم)
’’ مردوں کی بہترین صف پہلی صف اور بدترین آخری صف ہے اور عورتوں کی بہترین صف آخری اور بدترین صف(یعنی اجر وثواب اور فضلیت کے لحاظ سے کم تردرجے والی) پہلی ہے۔‘‘
اور یہ اس لئے فرمایا ہے کہ عورتوں کی پہلی صف مردوں کے زیادہ قریب ہوتی ہے لہٰذا وہ بدترین ہوئی اور آخری صف مردوں سے زیادہ دور ہوتی ہے لہٰذا وہ بہترین ہوئی اور اگر مشترکہ عبادت میں یہ حال ہے تو غیر عبادت میں آپ اس کا خود اندازہ فرما لیجئے۔ حالانکہ انسان حالت عبادت میں جنسی جذبات سے بہت دور ہوتا ہے تو اس سے اندازہ لگائیے غیر عبادت میں اختلاط کس قدر مہلک ہے۔ شیطان انسان کے جسم میں اس طرح سرایت کر جاتا ہے جس طرح خون کی گردش جاری ہے لہٰذا اختلاط کے نتیجے میں فتنہ اور بہت بڑا شر رونما ہوتا ہے اس لئے میں اپنے بھائیوں کو یہ دعوت دوں گا کہ وہ اختلاط سے دور رہیں اور جان لین کہ مردوں کے لئے یہ بات انتہائی نقصان دہ ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:
((ما تركت يعدى فتنة أضر على الرجال من النساء )) ( صحيح البخاري)
’’ میں نے اپنے بعد کوئی ایسا فتنہ نہیں چھوڑا جو مردوں کے لئے عورتوں سے بڑھ سے کر نقصان دہ ہو۔‘‘
الحمد اللہ! ہم مسلمان ہیں، ہماری ایک الگ پہچان ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ہم دوسری قوموں سے ممتاز ہوں، ہم پر یہ واجب ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تعریف کریں کہ اس نے ہم احسان فرمایا اور واجب ہے کہ ہم اس حقیقت کو بھی جان لیں کہ جو لوگ اللہ کے راستے اور اس کی شریعت سے دور بھاگیں گے وہ گمراہی سے دو چار ہو کر فتنے اور فساد میں مبتلا ہو جائیں گے، ہم یہ سنتے رہتے ہیں کہ جن قوموں کے مرد اور عورتیں مخلوط طور پر کام کرتے ہیں، اب وہ مقدور بھر کوشش کر رہے ہیں کہ اس سے نجات حاصل کریں لیکن اب اتنی دور سے ان کا ہاتھ وہاں تک کیسے پہنچ سکتا ہے؟
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب