سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(133) مخلوط بازاروں میں داخلہ

  • 9573
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1097

سوال

(133) مخلوط بازاروں میں داخلہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مسلمان کے لئے کسی ایسے بازار میں جانا جائز ہے جس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہاں بے پردہ عورتیں بھی ہیں اور ایسا اختلاط بھی جسے اللہ تعالیٰ  پسند نہیں فرماتا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس طرح کے بازار میں داخل ہونا جائز نہیں سوائے اس کے جو امر بالمعروف اور نہی المنکر کرنا چاہیے یا اگر کسی شدید ضرورت کی وجہ سے جانا پڑے  تو نظریں نیچی کر لے اور اسباب فتنہ سے اجتناب کرے تاکہ اپنے دین و عزت کی حفاظت کر سکے اور وسائل شر سے دو رہ سکے گی ہاں البتہ انتظامیہ اور اس شخص کے لئے جسے استطاعت ہو یہ واجب ہے کہ وہ ان بازاروں میں جا کر اس برائی کو روکے تاکہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ پر عمل کر سکے:

﴿وَالمُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ ۚ يَأمُر‌ونَ بِالمَعر‌وفِ وَيَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ‌...﴿٧١﴾... سورة التوبة

’’ اور ایماندار مرد اور ایماندر عورتیں ایک دوسرے کے معاون اور دوست ہیں اور وہ اچھے کاموں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔‘‘

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلتَكُن مِنكُم أُمَّةٌ يَدعونَ إِلَى الخَيرِ‌ وَيَأمُر‌ونَ بِالمَعر‌وفِ وَيَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ‌ ۚ وَأُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ ﴿١٠٤﴾... سورة آل عمران

 ’’ اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے۔ یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں‘‘

اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیات ہیں ، اسی طرح نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:

((إن الناس إذا راؤ المنكر فلا يغيرونه أوشك أن يعمهم الله بعقابه )) (سنن ابن ماجه)

’’ لوگ جب برائی کو دیکھیں اور نہ مٹائیں تو ممکن ہے کہ اللہ ان سب کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے۔‘‘

اس حدیث کو امام احمدؒ اور بعض اصحاب سنن نے حضرت ابو بکر صدیقؓ سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے نیز رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے:

(( من رأى منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الايمان )) ( صحيح مسلم)

’’ تم میں سے جو شخص کسی برائے کو دیکھے تو اسے ہاتھ سے مٹا دے، اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے (سمجھاوے) اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے (برا جانے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ۔‘‘

اس مضمون کی اور بہت سی احادیث ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 105

محدث فتویٰ

تبصرے