السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگ اجنبی عورتوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے تساہل سے کام لیتے ہیں مثلاً اگر کوئی شخص اپنے کسی دوست کے پاس جائے اور وہ گھر میں موجود نہ ہو تو اس کی بیوی اپنے خاوند کے اس دوست سے گفتگو کرنا شروع کر دیتی ہے، ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول دیتی ہے اور اس کے سامنے قہوہ یا چائے پیش کرتی ہے تو کیا یہ جائز ہے؟ یاد رہے اس وقت بیوی کے سوا گھر میں اور کوئی موجود بھی نہیں ہوتا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی بھی عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کی عدم موجودگی میں کسی اجنبی کو اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے خواہ وہ اس کے خاوند کا قابل اعتماد دوست ہی ہو کیونکہ اس کے معنی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت کے ہوں گے اور حدیث میں ہے:
((لا يخلون رجل بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان )) جامع الترمذي)
’’ کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت اختیار نہیں کرتا مگر ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔‘‘
کسی مرد کے لئے بھی یہ حرام ہے کہ اپنے دوست کی بیوی سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اس کے لئے دروازہ کھولے اور اس کی خدمت کرے خواہ اسے اپنی امانت و دیانت پر کتنا ہی اعتماد کیوں نہ ہو کیونکہ اس بات کا بہر حال خطرہ موجود ہوتا ہے کہ شیطان دونوں کے دلوں میں کوئی وسوسہ ڈال دے۔
خاوند پر بھی یہ واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی کو منع کرے کہ وہ کسی بھی اجنبی کو گھر میں داخل نہ ہونے دے خواہ وہ اس کا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:
((إياكم والدخول على النساء فقال رجل من الأنصار يا رسول الله ، أفرأيت الحمو؟ قال: الحمو الموت )) صحيح البخاري)
’’ عورتوں کے پاس جانے سے اپنے آپ کو بچائو۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ دیور کے بارے میں آپ کا کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: دیور تو موت ہے۔‘‘
’’حمو‘‘ خاوند کے بھائی یا اس کے رشتے دار کو کہتے ہیں لہٰذا اس کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے تو بطریق اولیٰ احتیاط کی ضرورت ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب