السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر باپ نماز پنجگانہ اور دیگر ارکان اسلام کا تو پابند ہو لیکن مزاروں اور درباروں میں مدفون لوگوں کے لئے نذر اور ذبح کے جواز کا بھی عقیدہ رکھتا ہو تو کیا بیٹے کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے اس باپ کے مال میں سے اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لئے کچھ لے یا اس کی وفات کے بعد اس کے مال کا وارث بنے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو بالغ مسلمان مردوں کے لئے نذر اور ذبح کے جواز کا عقیدہ رکھے تو اس کا یہ عقیدہ ایسا شرک اکبر ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کر دیتا ہے، ایسے شخص سے تین دن تک توبہ کا مطابہ کیا جائے گا اور اس پر سختی کی جائے گی، اگر توبہ کرے تو صحیح ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔
باقی رہا مسئلہ کہ بیٹے کا اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لئے اس کے مال سے کچھ لینا یا اس کی وفات کے بعد اس کا وارث بننا تو یہ اس بات پر مبنی ہے کہ وفات کے وقت باپ کی کیا حالت تھی اور اس کے عقیدہ کی کیا حقیقت تھی؟ یعنی اگر اس کے باپ کا اسی عقیدہ پرخاتمہ ہوا ہو اور یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے اس عقیدہ سے توبہ کی ہے تو پھر یہ بیٹا اپنے باپ کا وارث نہ ہو گا کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:
((لايرث المسلم الكافر ، ولا الكافر المسلم )) ( صحيح البخاري)
’’ مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا۔‘‘
زندگی میں بیٹا اپنے اس باپ کے مال کو اس وقت تک نہیں لے سکتا، جب تک وہ اسے خوش دلی سے دیتا رہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب