السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت اپنے شوہر ، والد اور بہن بھائیوں کو چھوڑ کر فوت ہوئی ہے، اس کی ایک بچی بھی تھی مگر وہ اپنی والدہ سے پہلے ہی فوت ہو گئی تھی، اس عورت نے تھوڑی سی نقدی چھوڑی ہے، اس کے ورثاء ایک بات تو یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ میراث میں ان کا حصہ کیا ہو گا اور دوسری بات یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ مذکورہ عورت نے فریضہ حج ادا نہیں کیا تھا اس لئے بعض ورثاء اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ اس کے ترکہ کی تقسیم سے پہلے اس سے اس کی طرف سے حج کروا دیا جائے اور بعض نے علماء کے فتوے اور حکم شریعت کے ساتھ اپنی رضا مندی کو موقوف کیا ہے تو اس سلسلے میں ہمیں آپ کے جواب انتظار ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر امر واقع اسی طرح ہے جس طرح ذکر کیا گیا ہے تو اس کی طرف سے حج و عمرہ کرنے والے کو اس کے ترکہ سے حج و عمرے کا خرچہ دیا جائے جبکہ یہ اپنی زندگی میں حج پر قادر تھی اور اگر یہ فقیر تھی تو پھر اس پر حج و عمرہ فرض نہیں ہے، حج و عمرہ کے اخراجات سے جو رقم بچ جائے اس سے اس کا قرض ادا کیا جائے بشرطیکہ یہ مقروض ہو، پھر وصیت پر عمل کیا جائے اگر اس نے کوئی وصیت کی ہو اس کے بعد جو باقی بچ رہے وہ وارثوں میں اس طرح تقسیم ہو گا کہ صورت مسئلہ دو سے بنے گی، اس کا نصف اس کے شوہر کو ملے گا اور باقی باپ کو، باپ کی وجہ سے بھائی ساقط ہو جائیں گے اور انہیں کچھ نہیں ملے گا، جو بچی اپنی ماں کی وفات سے پہلے فوت ہو گئی ہے، اسے بھی کچھ نہیں ملے گا کیونکہ تقسیم میراث کی شرطوں میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ تقسیم کے وقت وارث موجود ہو اور یہاں یہ شرط منقود ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب