سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(66) تقسیم میراث سے قبل قرضوں کی ادائیگی

  • 9506
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 1749

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مجھے ایک قریبی رشتے دار سے کچھ مال بطور وراثت ملا، اس وراثت میں میرے ساتھ ان کی ایک بیٹی اور دو بیویاں بھی شریک تھیں، پھر کچھ مدت کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ متوفی کے ذمہ بہت قرض ہے، باقی وارثوں نے تو ان کے قرض ادا کرنے میں حصہ لینے سے انکار کردیا لیکن میرا دل متوفی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے احساس کی وجہ سے بہت نرم ہو گیا تو میں نے یہ تہیہ کر لیا کہ میرے پاس جو مال موجود ہے میں اس سے کاروبار کر کے نفع حاصل کروں گا اور اس کے ذمے تمام قرض ادا کر دوں گا۔ اس وقت میرے پاس جو مال ہے، اس کے ذمہ قرضہ اس سے بہت زیادہ ہے۔ اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت کے ورثاء کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ قرض کی ادائیگی سے قبل وراثت میں سے کچھ لیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب وراثت کو بیان کیا تو فرمایا:

﴿مِن بَعدِ وَصِيَّةٍ يوصى بِها أَو دَينٍ...١١﴾... سورة النساء

’’ اور یہ تقسیم ترکہ میت کی ) وصیت کی تعمیل کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو س کے ذمہ ہو عمل میں آئے گی۔‘‘)

لہٰذا قرضوں کی ادائیگی سے پہلے وارثوں کے لئے میت کے مال میں کوئی حق نہیں، اگر انہیں قرض کا علم نہ ہو اور وہ مال تقسیم کریں تو پھر ہر وارث پر یہ واجب ہے کہ اس نے جو لیا ہے، وہ قرضوں کی ادائیگی کے لئے واپس کرے اور اگر کوئی اس سے انکار کرے تو وہ گناہ گار ہو گا اور میت اور صاحب قرض پر اس کی طرف سے یہ ظلم ہو گا۔ اب آپ نے اس مال کو جو تجارت میں لگا دیا ہے تاکہ اس سے نفع حاصل کر کے میت کا قرض ادا کر سکیں تو یہ ایک اجتہادی تصرف ہے، امید ہے اس اجتہاد کی وجہ سے آپ کو گناہ نہیں ہو گا لہٰذا آپ کو چاہیے کہ آپ نے جو مال بطور وراثت حاصل کیا ہے اس سے اور اس کے نفع سے بھی قرض ادا کریں لیکن آپ نے جو کیا ہے یہ جائز نہیں ہے کیونکہ آپ کو ایسے مال میں تصرف کا کوئی حق نہیں ہے جس کے آپ کے مستحق  ہی نہیں ہیں لیکن آپ نے چونکہ یہ بطور اجتہاد کیا ہے، اس لئے امید ہے آپ کو گناہ نہیں ہو گا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص64

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ