السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے والد صاحب 1391ھ میں بیمار ہوئے اور اسی سال انہوں نے 29ذوالقعدہ کو ایک تحریر کے ذریعے اپنے ایک تہائی مال کو وقف کر کے میرے سپرد کر دیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ اس بیماری سے صحت یاب نہیں ہو سکیں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں شفاء عطا فرما دی اور وہ اس بیماری کے چار سال بعد تک زندہ رہ کر 1395ھ میں فوت ہو گئے۔ وصیت لکھنے ، ایک تہائی مال کو اپنے قبضے میں لینے اور پھر والدہ صاحب کے شفا یاب ہو جانے کے بعد میں نے یہ سمجھا کہ شاید یہ وصیت اب ختم ہو گئی ہے اور پھر جب ہم نے وہ وصیت نامہ تلاش کرنا چاہا تو ہمیں نہ ملا، تلاش کر کے جب ہم تھک گئے تو ہم نے اس موضوع کو ہی ختم کر دیا کہ وصیت کرنے والا اب ماشاء اللہ زندہ سلامت اور صحت یاب ہے لیکن اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ والد صاحب1395/1/2 ھ کو وفات پا گئے اور اس دفعہ انہوں نے وفات سے پہلے کوئی وصیت نہیں کی، انہوں نے جو ترکہ چھوڑا وہ 32148 ریال ہے اسے ان کے وارثوں یعنی دو بیویوں، دو بیٹیوں اور چار بیٹوں میں تقسیم کر دیا گیا اور جب ہر وارث نے اپنا اپنا حصہ لے لیا تو مورخہ1396/8/10ھ کو ہمیں وہ وصیت نامہ بھی مل گیا، جو 1391ھ میں والد صاحب کی پہلی بیماری کے دوران لکھا گیا تھا جس میں انہوں نے مال کا تیسرا حصہ وقف کر کے اس کی نگرانی میرے سپرد کی تھی، اب جبکہ ترکہ تقسیم ہو چکا ہے ہم حیران ہیں کہ کیا کریں، وصیت نامہ پر عمل نہ کرنے کی جہ سے ہم ڈرتے ہیں کہ گناہ ہو جائے، یاد رہے مرحو کے بیٹے نیک ہیں اور ان کا مقصد بھی اپنے والدین سے نیکی کرنا ہے تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر امر واقع اسی طرح ہے جس طرح سوال میں مذکور ہے تو ہر وارث سے اس قدر رقم واپس لے لی جائے جو اس کے ترکہ کے ثلث یعنی دس ہزار سات سو سولہ ریال کے بقدر ہو یعنی ہر وارث سے تیسرا حصہ واپس لے لیا جائے تو وہ مجموعی طور پر میت کے ترکہ کے ثلث کے برابر ہو گا اور اسے اس کے شرعی وکیل کے سپرد کردیا جائے اور اس کی وصیت کے مطابق عمل کیا جائے بشرطیکہ وہ شرعی گواہی یا وارثوں کے اقرار سے ثابت ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب