السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے اپنے کل مال کے پانچویں حصے کی وصیت کی لیکن اولاد کے لئے رہائشی مکان کو اس سے مستثنیٰ کر دیا اس طرح کہ اسے شرعی میراث کے مطابق تقسیم کیا جائے لیکن وفات سے پہلے ہی اس نے اس مکان کو بیچ کر اور خرید لیا اور پھر اسے بھی بچی دیا اور اس کے بجائے ایک تیسرا مکان خرید لیا اور جب وہ فوت ہوا تو اس کے پاس یہی ایک مکان تھا جو اس کے بچوں کا مسکن ہے، کیا مذکورہ گھر اس پانچویں حصے میں داخل ہے اور اس کا حاکم پہلے گھر والا ہی ہو گا یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر امر واقع اسی طرح ہے جیسا سوال میں مذکور ہے تو وفات کے وقت اس شخص کے پاس جو گھر تھا یہ اسی گھر کا بدل ہو گا جسے اس نے وصیت میں مستثنیٰ قرار دیا تھا لہٰذا یہ پانچویں حصے میں شامل نہیں ہو گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب