السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک صاحب مال و عیال آدمی فوت ہوا ہے جس کی ساری اولاد نابالغ ہے، ان میں سے سب سے بڑے بچے کی عمر آٹھ سال ہے، یہ اچانک فوت ہو گیا اور اس نے کوئی وصیت نہیں کی، اگر اسے موت کا علم ہوتا تو یہ ضرور وصیت کرتا تو کیا اس کے مال میں سے کچھ بطور وصیت نکالا جا سکتا ہے یا نیک اعمال مثلاً حج ، عمرہ اور قربانی وغیرہ ہی کافی ہیں، رہنمائی فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وارثوں کے لئے اس کے مال میں سے کچھ الگ کرنا ضروری نہیں لیکن اگر وہ کوئی معلوم حصہ مثلاً ثلث یا ربع وغیرہ الگ کر دیں یا اس کی طرف سے کوئی نقدی وغیرہ صدقہ کر دیں یا کوئی جائیداد خرید کر اس کی طرف سے اللہ کی راہ میں وقف کر دیں اور اس کی آمدنی کو نیک اعمال میں خرچ کر دیں تو اس سے ان سب کو اجر و ثواب بھی ملے گا اور یہ ان کی اپنے باپ کے ساتھ نیکی بھی ہو گی لیکن یہ اس صورت میں ہو گا جب بچے نابالغ ہوں، جب بچے نابالغ یا ناقص العقل ہوں تو پھر ان کی ولی کے لئے ان کے حصے سے کچھ نکالنا جائز نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب